قیصر چوہان
پیٹرن انچیف کی مداخلت سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساکھ متاثر ہونے لگی ہے۔ چیئرمین کے اختیارات محدود کرنے کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر آئندہ سیزن میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ دوسری جانب اس حیران کن فیصلے کی سابق کرکٹرز شدید مخالفت کر رہے ہیں اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔ خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ پیٹرن انچیف کے اس فیصلے سے بڑے پیمانے پر کرکٹرز اور آفیشلز بے روز گار ہو جائیں گے۔ جس سے ڈومیسٹک کرکٹ میں بحران آنے کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ادھر پی سی بی کے ڈمی چیئرمین احسان مانی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ عمران خان پی سی بی کے معاملات خود چلا رہے ہیں۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے مخالف رہے ہیں۔ احسان مانی نے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بننے کے بعد کہا تھا کہ ڈپارٹمنٹ کی ٹیمیں ختم نہیں ہوں گی۔ تاہم احسان مانی کے چیئرمین بننے کے بعد پہلی بڑی پیش رفت کے طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئندہ سیزن سے ملک سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے بقول یہ فیصلہ خالصتاً وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر کیا گیا ہے اور اس کا مقصد ریجنل کرکٹ کو فروغ دینا بتایا گیا ہے۔ تاہم اس فیصلے سے ڈپارٹمنٹل کرکٹ سے منسلک تقریباً ایک ہزار سے زائد ملازم کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق آئندہ سال سے مختلف حکومتی ڈپارٹمنٹس ہر قسم کی کرکٹ سے دور ہوجائیں گے۔ تاہم ڈپارٹمنس کو کہا جائے گا کہ وہ اگر کھیل کے فروغ میں کوئی کردر ادا کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے کسی بھی ریجن کو اسپانسر کرلیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کیلئے ڈپارٹمنٹ کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اس فیصلے پر عملدرآمد سے ایک ہزار کے قریب کھلاڑی ملازمتوں سے فارغ ہوسکتے ہیں۔ جو کرکٹ کھیل کر ہی اپنے گھرانے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے، جس نے چیئرمین واپڈا کی سربراہی میں پہلی میٹنگ میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ٹاسک فورس ممبران ڈومیسٹک کرکٹ سے وابستہ محکموں سمیت تمام اسٹیک ہولڈز سے رابطے کر کے رپورٹ تیار کریں گے۔ جسے گورننگ بورڈ کے اجلاس میں منظوری کے بعد حتمی شکل دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق پی سی بی کے آئین میں ترمیم کر کے اس معاملے پر قانون سازی کی جائے گی۔ کمیٹی میں مزمل حسین کے علاوہ لاہور ریجن سے شاہ ریز عبداللہ خان روکھڑی، خان ریسرچ لیبارٹریز کے محمد ایاز بٹ، پی سی بی کے ڈائریکٹرز ہارون رشید، مدثر نذر، جنرل منیجر عثمان واہلہ اور منیجر ثاقب عرفان شامل تھے۔ ٹاسک فورس کے ارکان موجودہ فرسٹ کلاس سیزن ختم ہونے کے بعد اگلے سال کیلئے نئے مجوزہ نظام کو متعارف کرانے کیلئے سب سے مشاورت کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ کوالٹی کرکٹ پر اتفاق کرتے ہوئے ریجن کی آٹھ ٹیموں کو فرسٹ کلاس کا درجہ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے متعدد بیانات میں پی سی بی کے موجودہ فرسودہ ڈومیسٹک ڈھانچے پر تنقید کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان میں کرکٹ آسٹریلیا جیسا سسٹم اپنانے کے حق میں ہیں، جس میں میچز کی تعداد کم، لیکن کرکٹ کا معیار بہت اچھا ہو۔ ٹاسک فورس کی کوشش ہے کہ معیاری کرکٹ کیلئے ریجنز کی تعداد کو صرف چھ تک محدود کردیا جائے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، ملتان اور کوئٹہ کو نمائندگی دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم ایک تجویز یہ بھی ہے کہ چھ کے بجائے اس تعداد کو آٹھ
کر دیا جائے۔ ریجنز کو ڈویژن کرکٹ میں بدل دیا جائے۔ جو ٹیمیں گریڈ ون میں شامل نہیں ہوسکیں گی، ان کیلئے گریڈ ٹو طرز کی کرکٹ رکھی جاسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پینٹاگولر ون ڈے ٹورنامنٹ ختم کردیا جائے گا۔ تاہم کلب اور ڈسٹرکٹ کرکٹ کو مالی طور پر سپورٹ کرکے مزید بہتر کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ دوسری جانب اس فیصلے کی شدید مخالف کی گئی ہے۔ بورڈ سے منسلک ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان پرانے نظام سے چھیڑ چھاڑ کرکے اپنی ہی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ اس افسر نے یہ بھی بتایا کہ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کا کردار نہ ہونے کا برابر ہے۔ دراصل عمران خان خود ہی بورڈ کے معلامات کو چلاہے ہیں۔ دوسری جانب سابق قومی لیگ اسپنر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کسی حال میں ختم نہ کی جائے، کیونکہ اس سے قومی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ محکمہ جاتی ٹیموں نے پاکستان کو بڑے ہیروز دیئے ہیں۔ پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ عمران خان محکمہ جاتی ٹیموں کو بحال رکھیں۔ ایک سوال پر عبدالقادر کا کہنا تھا کہ ’’20 سے 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف گیارہ کرکٹرز ہی قومی ٹیم میں جگہ بناتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو اس امید پر کرکٹ کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں کہ انہیں کم از کم کسی ادارے میں نوکری مل جائے گی۔ لیکن یہ سلسلہ بھی ختم کردیا گیا تو مستقبل میں والدین اپنے بچوں کو کرکٹ کبھی نہیں کھیلنے دیں گے، جس سے ملکی کرکٹ کو نقصان ہوگا۔ اداروں کی ٹیمیں بند کرنے سے پاکستان کرکٹ کو دھچکا لگے گا اور ان گنت باصلاحیت کھلاڑی بے روزگار ہو جائیں گے۔ جبکہ نئی حکومت نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کر چکی ہے۔ لہٰذا عمران خان اداروں کی ٹیموں کو بند کرنے یا ان کے قومی کرکٹ میں کردار کم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں‘‘۔ واضح رہے کہ سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم نے حال ہی میں پی سی بی میں ڈائریکٹر کی ملازمت کو ٹھکرا کر نیشنل بینک میں ملازمت کی ہے۔ جبکہ پی سی بی کے کوچ اور سابق ٹیسٹ فاسٹ بالر سلیم جعفر نے بورڈ کی ملازمت چھوڑ کر حبیب بینک کو ہیڈ کوچ کی حیثیت سے جوائن کر لیا ہے۔ اس وقت کئی موجودہ اور سابق کرکٹرز مختلف اداروں سے وابستہ ہیں۔ تاہم اکثر کھلاڑی ڈپارٹمنٹ میں کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ادھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کے اختیارات محدود کردیئے گئے ہیں، تاکہ وہ اس فیصلے پر کسی بھی قسم کے دبائو کا شکار نہ ہوجائیں۔ جبکہ چیئرمین کے نصف سے زائد اختیارات منتقل کرنے کیلئے منیجنگ ڈائریکٹر کا نیا عہدہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ احسان مانی نے بورڈ آف گورنرز (بی او جی) کو ایک خط تحریر کیا ہے، جس میں ایم ڈی کی تقرری کیلئے بی او جی اراکین سے رسمی منظوری مانگی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نئے ایم ڈی کیلئے عارف عباسی، سلیم الطاف اور زاہد نورانی کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔