عمران خان
کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام کی ہدایت پر مارے گئے چھاپوں کے دوران ادارے کے افسران لوٹ مار کرنے لگے۔ گزشتہ دنوں اسمگل شدہ چھالیہ کی ضبطگی کیلئے کی جانے والی کارروائی کے دوران جوڑیا بازار میں مختلف گوداموں کے دفاتر سے 27 لاکھ روپے ہتھیا لئے گئے۔ کسٹم کے کرپٹ اہلکاروں کی غیر قانونی سرگرمیاں نہ صرف اسمگلروں کے خلاف کارروائیوں کو متاثر کر رہی ہیں، بلکہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کی بدنامی کا باعث بھی بننے لگی ہیں، جس کے نتیجے میں کسٹم انٹیلی جنس کی اسمگلروں کے خلاف کامیاب کارروائیاں بھی مشکوک ہورہی ہیں۔
ذرائع کے بقول ڈائریکٹوریٹ جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کے ڈپٹی کلکٹر اے ایس او سعد عطا ربانی کے ماتحت کام کرنے والی ٹیم نے تین روز قبل رات کو ڈھائی بجے کے قریب جوڑیا بازار کی ایک عمارت میں چھاپہ مارا۔ جہاں پر علائوالدین اور حاجی صدیق نامی تاجروں کے حوالے سے اطلاع تھی کہ ان کے گوداموں میں کروڑوں روپے مالیت کے اسمگل شدہ بھارتی سامان کے علاوہ دیگر غیر ملکی اشیا موجود ہیں۔ کسٹم انٹیلی جنس اے ایس او کی ٹیم انٹیلی جنس افسر عرفان غنی کی سربراہی میں اس عمارت میں داخل ہوئی اور سامان کو قبضے میں لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس چھاپے کیلئے کسٹم انٹیلی جنس اے ایس او کے سپرٹنڈنٹ رفیق مہر کی جانب سے مسلسل نگرانی کی جا رہی تھی۔ تاہم یہ کارروائی بری طرح ناکا م ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق علائوالدین اور حاجی صدیق نامی اسمگلر اپنے ملازمین کے ساتھ اطلاع ملنے پر موقع پر پہنچ گئے تھے، جنہوں نے کسٹم اہلکاروں کو پہلے ہوائی فائرنگ کرکے بھگانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد بعض افسران کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد کروڑوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان چھڑانے میں کامیاب ہوگئے اور کسٹم ٹیم کے ہاتھ 8 ٹرکوں کے بجائیصرف دو چھوٹی مزدہ گاڑیوں کا سامان لگا، جسے چھاپے میں مسروقہ سامان کی حیثیت سے قبضے میں لیا گیا۔ تاہم اس کارروائی کے دوران کسٹم انٹیلی جنس افسر عرفان غنی نے اپنے دیگر اہلکاروں کے ساتھ جوڑیا بازار کے ان گوداموں میں موجود دفتروں کے تالے توڑ کر وہاں سے 27 لاکھ روپے کی رقم غیر قانونی طور پر ہتھیالی اور اس رقم کو چھاپے کے مسروقہ سامان میں بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس معاملے پر جوڑیا بازار کے تاجروں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ ان کے مطابق یہ کارروائی کسٹم کی ٹیم کی جانب سے بغیر مجسٹریٹ کے کی گئی، حالانکہ چھاپے کیلئے کسٹم ٹیم کے ساتھ مجسٹریٹ کا ہونا لازمی ہے اور مجسٹریٹ کی موجودگی میں ہی ضبط شدہ سامان کی فہرست بنتی ہے۔ تاجروں کی جانب سے کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا گیا اور لوٹی گئی رقم واپس نہ دینے کی صورت میں جوڑیا بازار میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور کسٹم انٹیلی جنس کے خلاف احتجاج کرنے کی دھمکی دی گئی، جس کے بعد کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام نے چھاپہ مارنے والی ٹیم سے مکمل صورتحال معلوم کی اور حقائق سامنے آنے پر چھاپہ مارنے والی ٹیم میں شامل بعض اہلکاروں سے باز پرس کرنے کے بعد جب رقم بر آمد نہ ہوئی تو انہیں لاک اپ میں بند کردیا۔ اس اقدام پر ٹیم میں شامل اہلکاروں نے انکشاف کیا کہ چھاپے میں لوٹی گئی رقم کسٹم انٹیلی جنس افسر انسپکٹر عرفان غنی کے فلیٹ میں رکھی گئی ہے، جسے بعد ازاں بر آمد کرلیا گیا۔
’’امت‘‘ کو ذرائع سے اس پوری کارروائی اور لوٹ مار کے شواہد ملے ہیں، جس میں کسٹم انٹیلی جنس کے لاک اپ میں موجود عمیر نامی نوجوان کی ایک ویڈیو بھی شامل ہے۔ عمیر نے انکشاف کیا ہے کہ چھاپے کے بعد اس نے کسٹم ٹیم کے افسران کو 8 لاکھ روپے دیئے، جبکہ ماتحت اہلکاروں کو بھی 40 ہزار روپے دے چکا ہے۔ عمیر کا مزید کہنا تھا کہ اب اس کے پاس کچھ نہیں بچا۔ جبکہ کسٹم اہلکار اس کے گھر والوں سے بھی اس کا رابطہ نہیں کرا رہے۔ دوسری ویڈیو میں کسٹم انٹیلی جنس افسر عرفان غنی اپنے ساتھی کے ہمراہ فلیٹ پر رقم گنتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اور ساتھ ہی نوٹوں کی درجن سے زائد گڈیاں صوفے پر پڑی ہیں۔ اس سے پہلے انسپکٹر عرفان کے ساتھ موجود شخص نے ایک تھیلی کو کھول کر اس میں سے نوٹوں کی گڈیاں نکالیں۔ عمیر نامی شخص نے بھی اپنی گفتگو میں بتایا کہ سامان میں ایک تھیلی موجود تھی، جس میں رقم تھی اور یہ تھیلی اس سے کارروائی کرنے والی ٹیم کے ایک افسر نے چھین لی تھی۔
ذرائع کے بقول جوڑیا بازار اور اطراف کی مارکیٹیں اشیائے خور و نوش اور اشیائے صرف کی خرید و فروخت کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ کی حیثیت رکھتی ہے، جہاں سینکڑوں تاجروں کے بڑے گودام اور دکانیں قائم ہیں۔ یہاں ہر وقت اربوں روپے مالیت کا سامان موجود رہتا ہے اور اکثر و بیشتر یہاں پر اسمگل شدہ سامان ڈمپ کرنے کے حوالے سے بھی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ ذرائع کے بقول جوڑیا بازار کے بعض بڑے تاجر ملک کے بڑے اسمگلروں میں شمار کئے جاتے ہیں، جن کے گوداموں میں ہر وقت کروڑوں روپے مالیت کے اسمگل شدہ غیر ملکی سیگریٹ، کاسمیٹکس سامان، ادویات، بھارتی گٹکے کے علاوہ دیگر ممنوعہ سامان شامل۔ یہ تمام سامان بلوچستان سے حب کے راستے کراچی یوسف گوٹھ بلدیہ کے اڈے پر آنے والی انٹر سٹی مسافر بسوں میں اسمگل کرکے لایا جاتا ہے۔ یہ سامان افغانستان اور ایران سے چمن بارڈر اور دیگر راستوں سے پاکستا ن لایا جاتا ہے۔
اس پورے معاملے کی تفصیلی رپورٹ ڈائریکٹو ریٹ جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن سندھ کے ڈائریکٹر فیاض انور کے علم میں لانے کیلئے اعلیٰ حکام کو ارسال کردی گئی ہے، تاکہ ملوث افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس فیاض انور نے بھی ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس شوکت علی سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چند روز میں ان اہلکاروں کے خلاف حتمی کارروائی کیلئے ڈی جی کسٹم شوکت علی سے منظوری لے لی جائے گی، جو پہلے ہی کسٹم انٹیلی جنس میں موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرنے کے احکامات دے چکے ہیں۔