نمائندہ امت
جے یو آئی (ف) کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تاہم اب تک پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے ٹاسک اب قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو دیا گیا ہے، جن کے مولانا لطف الرحمان سے اچھے تعلقات ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی لطف الرحمان جو خیبر پختون اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر رہے ہیں، ان کے اور صوبائی اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کے درمیان اُس وقت بھی پارٹی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، اور یہ کہ جے یو آئی کے کئی مسائل اسی چینل سے حل ہوتے رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسد قیصر کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات چند دنوں میں متوقع ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے الیکشن سے پہلے بھی مولانا فضل الرحمان کو عمران خان کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لئے ملاقاتیں کی گئی تھیں۔ اس وقت وفاق میں عمران خان حکومت کی حمایت کے بدلے صوبہ خیبر پختون اور بلوچستان میں اہم مناصب اور عہدے دینے کی آفر بھی کی گئی تھی، لیکن مولانا فضل الرحمان نے عمران خان سے اتحاد کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ مولانا کا موقف ہے کہ عمران خان عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے انکار کے بعد ان کے خلاف فیصلہ ساز قوتوں نے بھی اپنا پلان تبدیل کیا، جس کے نتیجے میں مولانا سمیت ان کی جماعت کو بھی سیاسی نقصان اٹھانا پڑا۔ ذرائع کے بقول مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے کہ ان کو جو ’’سزا‘‘ دی گئی، وہ ان کے اس سخت موقف کی وجہ سے دی گئی جو انہوں نے عمران خان کے بارے میں اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن نتائج کے بعد سے اب تک ان کا غصہ کم نہیں ہو رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ وزیر اعظم پر بھی وہ برس رہے ہیں۔ جے یو آئی کے ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے رویے کی سختی کو نرمی میں بدلنے کیلئے مولانا عبد الغفور حیدری جیسی شخصیت کے علاوہ ان کے بیٹے رکن قومی اسمبلی مولانا اسد محمود بھی بات کرچکے ہیں۔ لیکن مولانا اپنا موقف بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اسلامی و نظریاتی اساس پر عالمی قوتیں بشمول قادیانی حملہ آور ہو چکے ہیں اور اگر اس موقع پر کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ مولانا فضل الرحمان نے اسی خطرے کے پیش نظر وفاق المدارس اور دیگر علمائے کرام کو بھی ملک بھر میں دورے کر کے متحرک کیا۔ بعض قوتوں نے جے یو آئی (ف) کو تنہا کرنے کیلئے طاہر اشرفی جیسے لوگوں اور بعض مذہبی جماعتوں کو نئے سرے سے متحرک کیا، لیکن جے یو آئی (ف) کے ایک رہنما کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی کامیاب حکمت عملی اور متحرک ہونے سے ان کے مخالف سیاسی مذہبی قوتیں تنہا ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے علمائے کرام کے ایک اجلاس میں کہا کہ ان کو نہیں معلوم کہ ان کی زندگی کتنی باقی ہے، لیکن پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملہ آور قوتوں کے خلاف وہ ڈٹے رہیں گے اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور صوبہ خیبر پختون اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف مولانا لطف الرحمان (برادرِ اصغر مولانا فضل الرحمان) کے درمیان آپس میں پارٹی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ملاقاتیں ہوئیں۔ کیونکہ گزشتہ اسمبلی میں بطور اسپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر اور مولانا لطف الرحمان کے درمیان اچھا سیاسی تعلق تھا اور جے یو آئی کے بڑے مسائل اسی چینل سے حل ہوتے رہے۔ ان روابط کے بعد مولانا فضل الرحمان کے اب اسلام آباد میں مستقل میزبان سینیٹر طلحہ محمود اور پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر اور عمران خان کے بااعتماد قریبی ساتھی عاطف خان کے درمیان بھی متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ لیکن وہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے رویے میں لچک لانے پر قائل نہیں کر سکے۔ جس کے بعد اب اسپیکر اسد قیصر جو ایک بااصول اور قانون پر چلنے والے اسپیکر کے طور پر سامنے آئے ہیں، پی ٹی آئی قیادت نے انہیں مولانا فضل الرحمان سے روابط اور موقف میں نرمی لانے کا ٹاسک دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے چند دنوں تک عمرے پر روانہ ہونا ہے، اس سے پہلے ان کی اور اسد قیصر کی ملاقات متوقع ہے۔ ایک سوال پر ان ذرائع نے بتایا کہ مولانا کی جارحانہ تقاریر، سخت موقف اور آصف زرداری، شریف برادران، اچکزئی، اسفندیار کے ساتھ ملاقاتوں سے پی ٹی آئی خاصی خائف ہے، اسی لئے مولانا سے مفاہمت کے لئے نئے سرے سے کوششوں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے بقول مولانا فضل الرحمان نے پنجاب میں تبدیلی لانے کے لئے پرویز الٰہی سے رابطوں کا آغاز کیا تھا، کیونکہ پنجاب میں قاف لیگ کی دس نشستیں ہیں اور آزاد ارکان کی مدد سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ گو کہ پرویز الٰہی تک ان کا موقف یا سوچ ابھی نہیں پہنچی تھی، لیکن بعض قوتوں کے اشارے پر گزشتہ چند دن سے حمزہ شہباز نے پرویز الٰہی کو نشانے پر رکھ لیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان جو منصوبہ رکھتے ہیں، اسے وقت سے پہلے ہی سبوتاژ کردیا جائے اور نواز شریف اگر عمران خان یا ان کے سرپرستوں کی مخالفت میں مولانا کی کوششوں سے چوہدریوں کے قریب ہونا بھی چاہیں تو ایسا نہ ہو سکے۔
ادھر جے یو آئی کے ایک اہم رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ یا عمران خان کی حکومت کے پاس کیا ہے، جو وہ مولانا فضل الرحمان کو دے کر سیاسی حمایت حاصل کریں گے۔ ایک سوال پر ان رہنما نے از راہِ مذاق کہا کہ ’’آخری عہدہ صدر پاکستان کا تھا۔ اس کی پیشکش کی جاتی تو شاید غور بھی کیا جاتا۔ لیکن اب جے یو آئی کی کوئی ضرورت یا مجبوری نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یا اس کے کارندوں کے ساتھ جائیں۔ معیشت کی زبوں حالی، مہنگائی کے طوفان، سیاسی و انتظامی ناتجربہ کاری نے پی ٹی آئی حکومت کی اہلیت اور صلاحیت اسے لانے والوں پر آشکار کر دی ہے۔ جو ان کو لائے ہیں، وہی انہیں بھگتیں بھی۔ ہم اپنی اور اس ملک کی نظریاتی و اسلامی اساس کے محافظ بن کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اور اس پر کوئی آنچ نہیں دیں گے۔ موقف میں سختی اور موجودہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہمارے اسی کردار کی ضرورت اور حصہ ہے‘‘۔ ادھر تحریک انصاف میں موجود اہم ذریعے کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں عمران خان کے موقف میں تبدیلی پر بڑی حیرانگی کا اظہار نہیں کیا جارہا۔ بلکہ اسے عمران خان کے ایک اور یوٹرن سے تعبیر کیا جارہا ہے۔