حکیم صاحب کی انوکھی برکت

ابو محمد ال خشاب غوری سے مروی ہے کہ ایک جولاہے کا گزر ایک طبیب پر ہوا، اس نے دیکھا کہ وہ کسی مریض کو دوائی کے طور پر عرق گلاب اور تمر ہندی (املی کٹارے) تجویز کر رہا ہے، اس نے کہا کون ہے جو اس کام کو عمدگی سے کر سکے؟ یہ جولاہا اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے لئے ایک بڑا عمامہ بنائو، اس نے کہا تو اس عمامہ کا کیا کرے گا؟ اس نے کہا میں تو اب حکیم بنوں گا، بیوی نے کہا تو ایسا مت کر، لوگ تجھے ماریں گے، جب لوگوں کو تو جان سے مارے گا تو لوگ تمہیں ماریں گے۔
اس نے کہا یہ میرا اٹل فیصلہ ہے (آخر کار بڑا پگڑا باندھ کر مطب شروع کر دیا گیا) پہلے دن جا کر بیٹھا اور لوگوں کے لئے دوائیں تجویز کرنا شروع کر دیں اور کافی روپے کمائے اور کئی دن ایسا کرتا رہا، پھر آ کر بیوی سے کہا میں روزانہ ایک (جیسی) گولی بنا لیتا ہوں (اور ہر بیمار کو وہی دیتا ہوں) دیکھ کتنا کما چکا ہوں، اس کی بیوی نے کہا کہ یہ کام اب چھوڑ دے۔ اس جولاہے نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ایک باندی کا گزر ’’حکیم‘‘ صاحب (کے مطب) کی طرف سے ہوا، اس نے دیکھ کر اپنی مالکہ سے کہا جو کہ سخت بیمار تھی، میرا جی چاہتا ہے کہ نیا طبیب تمہارا علاج کرے، اس ملکہ نے کہا کہ اس کو بلائیں، چنانچہ یہ حکیم تشریف لے آئے اور حال یہ تھا کہ اس بیمار کا مرض تو ختم ہو چکا تھا، صرف کمزوری باقی تھی (مگر دوسرے حکیم یہ سمجھ نہیں سکے تھے) اس جولاہے نے تجویز کیا کہ ایک مرغی بھون کر لائو ؟ وہ لائی گئی اور مریض نے خوب کھائی اور تین چار دن تک ایسا ہی کیا تو ضعف جاتا رہا اور وہ اٹھ بیٹھی، پھر تو اس کی خوب واہ واہ ہوئی، آہستہ آہستہ یہ خبر بادشاہ تک پہنچ گئی، بادشاہ نے اس کو بلا کر جس مرض میں مبتلا تھا اس کا اظہار کا، اتفاقیہ طور پر اس نے ایک ایسی دوائیں کہہ دیں، جس سے اس کو فائدہ پہنچا اور بادشاہ ٹھیک ہو گیا۔
اس کے بعد بادشاہ کے پاس ایسے لوگوں کی ایک جماعت آئی جو اس جولاہے کو جانتی تھی، انہوں نے کہا کہ یہ شخص ایک جولاہا ہے۔ یہ کچھ نہیں جانتا، سلطان نے کہا کہ اس شخص کے ہاتھ سے مجھے صحت ہوئی اور فلاں عورت کو اسی کے علاج سے صحت ہوئی (یہ میرا تجربہ ہے، اس کے خلاف) میں تمہاری بات تسلیم نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا ہم تجربہ کرانے کے لئے اس کے سامنے مسائل رکھتے ہیں، بادشاہ نے کہا ایسا کر لو اور انہوں نے کچھ سوالات تجویز کرائے، اس کے لئے اس جولاہے نے کہا اگرمیں ان مسائل کے جوابات تمہارے سامنے بیان کروں گا تو تم جواب نہیں سمجھ سکو گے، کیونکہ جوابات کو وہی سمجھ سکتا ہے جو طبیب ہو، لیکن (اگر تمہیں تجربہ ہی کرنا ہے تو اس طرح کر لو) کیا تمہارے یہاں کوئی بڑا شفاخانہ ہے؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہے، پھر اس نے کہا کہ کیا اس میں ایسے بیمار ہوں گے جو مدت سے پڑے ہوں؟ لوگوں نے کہا ہاں ہیں، اس نے کہا بس میں ان کا علاج کرتا ہوں، تم دیکھتے رہ جائو گے کہ سب کے سب چند دن میں عافیت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (اس علاج کے بعد) کیا میری قابلیت کے اظہار کے لئے کوئی دلیل اس سے بڑی ہو گی؟
لوگوں نے کہا کہ نہیں، چنانچہ سب شفاخانہ کے دروازے پر پہنچے، اس نے لوگوں سے کہا کہ تم سب یہاں بیٹھو، میرے ساتھ اندر کوئی نہ آئے۔
اس کے ساتھ صرف ایک شفاخانہ کا افسر تھا، یہ اسے لے کر اندر داخل ہو گیا، جولاہے نے اس افسر سے کہا کہ جو کچھ میں عمل کروں تو نے کسی کے سامنے کچھ نہیں کہنا، اگر تو نے کسی کے سامنے اس کا اظہار کیا تو میں تجھے پھانسی دلائوں گا، اگر تو خاموش رہا تو میں تجھے مالا مال کر دوں گا۔ اس افسر نے کہا کہ میں خاموش رہوں گا اور افسر سے حلف بالطلاق دلایا، یعنی اس سے قسم لی کہ وہ اگر کچھ بولے گا تو اس بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔ پھر اس سے پوچھا کہ تیرے پاس شفاخانہ میں تیل موجود ہے؟ اس نے کہا ہاں! کہا کہ لے کر آئو، وہ بہت سا تیل لے کر آیا۔
اس جولاہے نے تمام تیل ایک بڑی دیگ میں ڈالا اور اس کے نیچے آگ جلائی، جب تیل خوب جوش مارنے لگا تو مریضوں کی جماعت کو آواز دی، اس میں سے ایک مریض سے کہا کہ تیری بیماری صرف اسی سے دفع ہو سکتی ہے تو اس دیگ میں بیٹھ جائے، مریض خدا کو یاد کرنے لگا کہ خدایا تو ہی مددگار ہے۔
’’حکیم جی‘‘ نے کہا تجھے یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔ اس مریض نے کہا مجھے تو شفا ہو چکی تھی، بس معمولی سا سر میں درد تھا۔ حکیم جی نے کہا کہ پھر تو یہاں کیا کر رہا ہے، جب اچھا ہو گیا ہے تو تجھے جانا چاہئے تھا۔ اس مریض نے کہا بس یونہی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ حکیم نے کہا تو چلا جا اور لوگوں سے کہتے جانا کہ میں تندرست ہو گیا، وہ یہاں سے نکل کر بھاگا اور لوگوں سے کہتا گیا کہ میں شفایاب ہو گیا۔ ان صاحب کی آمد سے پھر دوسرے مریض کا نمبر آیا، اس سے بھی ایسا ہی کیا گیا کہ تیری بیماری صرف اسی طرح دور ہو سکتی ہے کہ تو اس دیگ میں بیٹھ جائے، اس نے کہا: حکیم جی میں تو تندرست ہو گیا ہوں۔ حکیم صاحب نے کہا اس میں بیٹھنا ضروری ہے اس نے کہا میں تو آج شام کو واپسی کا ارادہ رکھتا ہوں۔ حکیم جی نے کہا کہ اگر تجھے شفا ہو چکی ہے تو چلا جا اور لوگوں سے کہتے جانا کہ میں اچھا ہو گیا ہوں۔ اب یہ بھی نکل کر بھاگا اور لوگوں سے کہتا گیا کہ حکیم صاحب کی برکت سے مجھے صحت ہو چکی ہے۔ یہ حال سب کا ہوا، یہاں تک کہ سب حکیم کا شکر ادا کرتے ہوئے رخصت ہو گئے اور بھاگتے چلے گئے اور حکیم کی شہرت ہو گئی اور مخالفین شرمندہ ہوئے۔(سبق آموز واقعات)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment