ڈاکٹر عبدالقدیر خان میری پریرنٹیشن سے متاثر ہوئے تھے

؏معزز سامعین کے یہ بھی گوش گزار کیا گیا کہ کرمان کی کوئلے کی کان سے نوکنڈی اسٹیل مل تک کوئلے کی ترسیل کے دو عدد آپشنز دستیاب ہیں۔
(الف) کرمان کی کوئلے کی کانوں سے نوکنڈی تک ڈھلائی ایرانی ٹرکوں کے ذریعے کرائی جائے کہ وہ پاکستانی ٹرکوں سے بہت سستے ثابت ہوں گے۔
(ب) ایرانی ٹرکوں سے کوئلے کی ترسیل صرف کوئلے کی کانوں سے زاہدان ریلوے اسٹیشن تک کرائی جائے اور وہاں سے نوکنڈی تک بذریعہ کوئٹہ زاہدان ریلوے لائن کی جائے۔ بتایا گیا کہ خرچہ دونوں صورتوں میں تقریباً ایک جیسا ہی ہوگا۔ مگر دوسرے آپشن میں بوجہ کوئٹہ، زاہدان ریلوے لائن کی خستہ حالی اور پاکستانی ریلوے کے پاس ریلوے ویگنوں کی دیرینہ اور کبھی نہ ختم ہونے والی کمیابی کوئلے کی ترسیل کے کام میں مستقل رکاوٹیں پڑنے کا خدشہ ہے۔
معزز سامعین کو یہ بھی بتایا گیا کہ مستقبل میں نوکنڈی اسٹیل مل کو دس لاکھ ٹن فولاد سالانہ سے تیس لاکھ یا پچاس لاکھ ٹن سالانہ فولاد کی گنجائش تک وسعت دینے میں اگر کسی منزل پر خام لوہے کی کمیابی کا سامنا ہو تو اس صورتحال کے مداوے کے لیے ایران کے کبھی نہ ختم ہونے والے سیرجان کے خام لوہے کے ذخائر اور ایرانی بھائیوں پر بھروسا کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ سیرجان کے خام لوہے کے ذخائر اور کرمان کے کوئلے کے ذخائر آج بھی نوکنڈی سے اعلیٰ قسم کی پختہ سڑکوں کے ذریعے ملے ہوئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ایران میں اور بھی کتنے ہی خام لوہے اور کوئلے کے ذخائر ہیں مگر وہ پاکستان و ایران کی سرحد سے زیادہ فاصلوں پر واقع ہیں اور یوں ہمارے لیے چنداں باعث دلچسپی نہیں ہیں۔
اسی نشست میں معزز سامعین کو کرمان کے کوکنگ اور غیر کوکنگ کوئلوں کے نمونوں، سیرجان خام لوہے کے نمونوں نیز ہرمز سالٹ ڈوم کی فلزہ گریڈ (ore grade) ہیماٹائٹک کیپ راک (hematitic cap rock) کی کیمیائی تجزیہ رپورٹیں بھی دکھائی گئیں نیز تہلاب یا میرجاوا خشک دریا کی وادی میں نمک کے وسیع ذخائر دریافت ہونے کی ممکنات سے بھی آگاہ کیا گیا۔
کیونکہ یہ ایک غیر رسمی مجلس تھی اس لیے مجھے حقیر کے بیان کے درمیان بھی میرے سامعین مختلف امور پر سوالات کرتے رہے اور میں ساتھ ساتھ اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتا رہا یا چاہی گئیں مزید تفصیلات دیتا رہا۔ بحیثیت مجموعی تمام صاحبان نے میری معروضات کو بڑی توجہ سے سنا اور مختلف امور میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔
میری بات چیت کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ میں انہیں کرمان کوئلے کی ذخائر پر ایک بریف تیار کر دوں تاکہ وہ اسے حکومت پاکستان کے متعلقہ شعبہ جات کو ضروری کارروائی کے لیے روانہ کر سکیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان اسٹیل کراچی کو کرمان میں نئی کوئلے کی کانیں تعمیر کرنے اور نئے کوئلہ واشنگ پلانٹ لگانے کے لیے حکومت ایران کے متعلقہ اداروں کے ساتھ جوائنٹ وینچر پروجیکٹس لگانے چاہئیں۔ یہ سن کر مجھے تو ڈپریشن ہونے لگا کہ مجھے پاکستان اسٹیل جیسے ادارے سے بہتری کی کوئی امید نہ تھی۔ خیر یہ خیال، ڈاکٹر صاحب کے دماغ سے خودبخود ہی نکل گیا اور میں اس سلسلے میں مخالفت کر کے ڈاکٹر صاحب کی بیڈ بک میں آنے سے بچ گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے آخر میں مجھ سے فرمایا کہ جیسے ہی میرا ایران کے دورے کا پریزنٹیشن تیار ہو جائے میں انہیں مطلع کروں تاکہ وہ اپنے دفتر میں میری تفصیلی بات چیت کا بندوبست کر سکیں وہ اس بات چیت میں تمام متعلقہ اہم ہستیوں کو مدعو کرنا چاہتے تھے۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں پوری کوشش کروں گا کہ میری تیاری جلد از جلد مکمل ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقا سے میری یہ بات چیت صبح دس بجے شروع ہوئی اور تقریباً سوا بارہ بجے دوپہر اختتام کو پہنچی۔
اپنے بلوچستان کے نمک کے پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے دن یعنی 4 اپریل کو میں نے جیو سائنس لیبارٹریز چک شہزاد اسلام آباد میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سید حسن گوہر صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی میٹنگ رکھی۔ اس نشست میں راقم الحروف نے تافتان کے علاقے کے اپنے تیارکردہ جیولوجیکل نقشوں اور جیولوجیکل سیکشنوں ونیز متعلقہ علاقے کی اپنے کیمرے سے لی گئی تصاویر سے گوہر صاحب پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ تافتان کا علاقہ دراصل ایران کے عظیم نمک کے سمندر، دشت لوط کی مشرقی سرحد کا ایک حصہ ہے اور یہاں نمک کے بڑے ذخائر ملنے کے قوی امکانات ہیں۔ مگر یہ امر ابھی ایک جیولوجسٹ کا خیال ہے۔ یہ خیال حقیقت میں بدل سکتا ہے پانچ پانچ سو فٹ گہرے تین عدد بور ہولز کے ذریعہ۔ اور یہ کام جیولوجیکل سروے آف پاکستان کا ڈرلنگ یونٹ بخیر و خوبی انجام دے سکتا ہے۔ گوہر صاحب نے ازراہ عنایت میری رائے سے اتفاق کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ یہ دلچسپ اور دور رس فائدے والا کام کرنے کو تیار ہیں۔ بشرطیکہ ڈرلنگ پر آنے والے خرچ کا نصف حکومت بلوچستان برداشت کرے اور یہ شرط بھی وہ اس لیے لگا رہے ہیں کہ ان کے بجٹ میں اس کام کے لیے درکار کل رقم موجود نہیں ہے۔ ڈرلنگ (کور ڈرلنگ) پر آنے والے اصل خرچ کا تخمینہ انہوں نے 4,500 روپے فی میٹر بتایا، جو اس زمانے میں اتنی گہرائی کے ڈرل ہولوں کے لیے نجی ڈرلنگ کمپنیوں کے کمرشل ڈرلنگ نرخوں سے بھی بہت زیادہ تھا بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ جن راکس (rocks) میں ڈرلنگ کرنی تھی یعنی جپسم، نمک کی تلچھٹی مٹی اور نمک، وہ ڈرلنگ کے لیے سوجی کے حلوے کی مانند نرم اور آسان تھیں۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر عرض کررہا ہوں کہ 1980ء تا 1985ء کے دوران میں نے بحیثیت چیف جیولوجسٹ پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن پوری سالٹ رینج میں اپنی تین عدد ڈرلنگ مشینوں کے ذریعے نمک کے لیے بہت سی ڈرلنگ کرائی تھی۔ مگر حسن گوہر صاحب سے میرے تعلقات ایسے نہ تھے کہ میں ان حضرت سے سودے بازی کرتا یا ان کے تخمینے کا ابطال کرتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment