وزیر خانم نے بیٹے کو بڑی بی کی باتوں سے آگاہ کردیا

ناشتے اور گھر کے ضروری انتظامات سے فارغ ہوکر وزیر نے نواب مرزا کو اپنے حجرے میں بلایا اور ساری باتیں اس کو بتادیں۔ بائی جی کے یہاں جو گزرا تھا وہ بھی اس نے بیان کر دیا۔ لیکن بڑی باجی سے فاطمہ کے بارے میں جو بات ہوئی تھی، اس کا ذکر اس نے اس خیال سے نہ کیا کہ نواب مرزا کہیں فاطمہ کے لالچ میں قلعے والی بات پر صاد نہ کردے۔ اس کے برخلاف، خود وہ شکوک اور خوف جو وزیر کے دل میں تھے، وہ اس نے پوری طرح ظاہر کر دیئے۔ نواب مرزا پوری توجہ سے ماں کی باتیں سنتا رہا۔ جب ماں سب حال کہہ چکی تو ایک لحظہ چپ رہ کر، گویا ہنوز معاملے پر غور کر رہا ہو، نواب مرزا نے جواب دیا۔ ’’اماں جان، میرے خیال میں آپ میری اور آغا صاحب کی فکر چنداں نہ کریں۔ میں تو اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتا ہوں اور آغا صاحب کو بڑی خالہ جان بہت اچھی طرح پال لیں گی۔ مجھے پورا یقین ہے‘‘۔
کچھ کبیدگی، آزردگی، اور مایوسی کی ملی جلی سی پرچھائیں وزیر کے دل پر سے گزری۔ گویا صاحبزادے کو یقین ہے کہ میں حویلی والوں کا پیغام قبول کرلوں گی، اور گویا مجھے یہ پیغام قبول کرلینا ہی چاہئے اور گویا میرے دل میں بچوں کی اصلاً محبت نہیں کہ میں بخوشی انہیں چھوڑنے پر راضی ہوجاؤں گی۔ اور آغا صاحب تو چھوٹے ہیں، شاید رو دھو کر بہل جائیں۔ لیکن یہ تو ماشاء اللہ جوان ہیں، سمجھدار ہیں، کیا انہیں میری یاد نہ آئے گیِِ؟ کیا یہ اپنے بھاویں حویلی کے سپرد نہیں، بلکہ مہندیوں میںکسی گور کے سپرد کر دیویں گے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں گے؟ ان کے کوئی بہن ہوتی تو کیا وہ اسے بھی اتنی ہی آسانی سے غیر گھر میں توپ دیتے؟ شاید ان کا خیال ہوگا کہ اماں راستے سے ہٹیں تو میں فاطمہ کو بیاہ کر اپنی راہ لوں۔ شاید دکن چلے جائیں اور مجھے کبھی منہ نہ دکھائیں۔ سنا ہے نظام الملک کے یہاں شاعروں کی بڑی قدر ہے۔ ہمارے شاہ صاحب بھی وہیں چلے گئے اور بالآخر وہیں کے ہو رہے۔ اور کیا دکن کا سفر کوئی یہاں سے شاہدرے کا سفر ہے کہ بہلی میں بیٹھے، جمنا پار کی اور پہنچ گئے۔ آٹھ دن میں تو لوگ آگرے پہنچتے ہیں اور دکن تو آگرے سے بھی کئی سو کوس دور دست ہے۔
’’کس سوچ میں ڈوب گئیں اماں جان؟‘‘۔ یکا یک نواب مرزا کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے چونک کر جلدی سے منہ پر ہاتھ پھیرے، گویا وضو کر کے منہ پونچ رہی ہو۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔ وہ گڑبڑا کو بولی۔ ’’میں صرف سوچ رہی تھی کہ میری عمر اب نکاح بیاہ کی نہیں ہے۔ میں تو چاہتی تھی کہ اب تم دونوں کے سہارے زندگی کر لیتی۔ تم کسی نوکری سے لگ جاتے تو…‘‘۔
’’اماں جان، آپ میری نوکری کی فکر نہ کیجئے۔ وہ تو انشاء اللہ مل جائے گی۔ لیکن آپ… آپ ابھی کمسن ہیں اور اگر ذرا بھی خود کو ٹھیک ٹھاک رکھیں تو ابھی ماشاء اللہ سے اور بھی اچھی لگیں گی۔ اور… اور بڑی بات یہ کہ اب تک تقدیر نے آپ کو… آپ کو کہیں جم کر بیٹھنے کی مہلت نہیں دی تھی۔ اب شاید وہ صورت پیدا ہو رہی ہے۔ کوئی آئے یا جائے، لیکن قلعہ معلیٰ تو کہیں جائے گا نہیں۔
وزیر کی کبیدہ خاطری کچھ کم ہوئی۔ تو نواب مرزا دراصل میری محبت میں کہہ رہے تھے۔ اپنی غرض میں باولے نہیں تھے۔ لیکن ہم لوگوں میں جدائی، یہ بات انہوں نے کیسے گوارا کرلی؟
نواب مرزا نے ماں کے دل کی بات شاید سمجھ لی تھی۔ اس نے بہت مضبوط لہجے میں اور ٹھہر ٹھہر کر کہنا شروع کیا: ’’دیکھئے اماں جان۔ آپ کے دامن سے چھوٹ کر ہم میں سے کوئی نہیں رہ سکتا۔ اور وہ تو ہرگز نہیں رہ سکتا۔ پر یہ بھی تو دیکھا چاہئے کہ آپ ہی نہ ہوں گی تو ہم تنہا کیا جی لیں گے؟ اور اگر آپ کی زندگی میں خوش گواری اور آرام آجائے تو کیا آپ کی عمر میں اضافہ نہ ہوگا؟ اور کیا آپ ہم دونوں کے لئے بہتر سے بہتر بندوبست نہ کرسکیں گی؟‘‘
’’تم لوگوں کو چٖھوڑ کر میں اپنا آرام مناؤں، یہ مجھ سے نہ ہوگا‘‘۔
’’چھوڑنے کی بات کس نے کہی؟ ہو سکتا ہے ہم دونوں کو، یا ہم میں سے ایک کو قلعے میں بلواہی لیا جائے۔ پھر دوسرے کو آپ کہیں باہر تھوڑا ہی بھیج رہی ہیں…‘‘۔
وزیر نے بات کاٹ کر بے چینی سے کہا: ’’اور اگر تمہاری نوکری کہیں دور دکن میں یا رامپور ہی میں لگ گئی تو؟ پھر میں تمہیں کہاں پاؤں گی؟ اس کی آواز بھرانے لگی۔
’’نوکری لگے گی کیسے؟ میں ملتجی ہوں گا تب تو کوئی مجھے نوکر رکھے گا؟ اس نے ہنس کر کہا۔ ’’یہ گھر آپ بیچ دیں گی کیا؟‘‘۔
’’نوج دو پار ایسی بات منہ سے نکالو متی۔ تمہارے باپ کی یادگار، ہم لوگوں کے سر چھپانے کے لئے گوشۂ عافیت، میں اسے کیوں بیچتی؟‘‘۔
’’تو پھر خاطر جمع رکھئے۔ آپ حویلی میں شاہوں کے ٹھاٹ سے رہئیے گا، ہم یہاں خوش دل اپنی کھال میں مست سر چھپائے پڑے رہیں گے‘‘۔
’’چل ہٹ تجھے تو ہر گھڑی چہل ہی سوجھتی ہے۔ تو بڑی خالہ کے یہاں…‘‘ وزیر کے منہ سے بے ساختہ نکلا، لیکن اس نے جلدی سے زبان بند کرلی۔
نواب مرزا نے وزیر خانم کا سہو کلام نظر انداز کیا، ہر چند کہ وہ اس کے معنی ایک حد تک سمجھتا اور وہ دل سے چاہتا تھا کہ اسی وقت کھل کر بات ہوجائے۔ وہ چپکا رہا کہ شاید اماں جان بات کو کچھ کھولیں۔ لیکن وزیر اب بھی اسی خیال کی تھی کہ فاطمہ والی بات اگر میں صاف کہہ دوں گی تو اس کے لالچ میں نواب مرزا مجھ پر اور بھی زور ڈالیں گے کہ آپ قلعے کا پیغام قبول کرلیں۔
نواب مرزا نے خود ہی بات بنادی۔ ’’جی اماں جان، بڑی خالہ جان تو ہیں ہی، وہ آغا صاحب کو خوب ٹھیک سے دیکھ بھال لیں گی اور میں یہاں بے فکری سے رہوں گا۔‘‘ پھر اس نے یہ شعر بڑے لحن سے پڑھا
او بفکر من است و من فارغ
بندگی ہا خدائے دارد
’’سچ کہیئے گا اماں جان، کیسی پر لطف بات کہی۔ آخر بیدل کے شاگرد تھے۔ کچھ اس طرح کا آپ کا بھی حال ہو رہا ہے۔ ہماری فکر میں ہلکان ہو رہی ہیں اور ہم موجیں مارتے پھر رہے ہیں‘‘۔
’’اچھا اور آپ کی فکر میں ہم ہلکان نہ ہوں گے تو کیا لوہارو والے ہوں گیِ؟ وزیر کے لہجے میں شفگتگی تھی، لیکن اس کی تہ میں محزونی بھی صاف جھلکتی تھی۔ ’’ذرا سوچ سمجھ کر جواب دو صاحبزادے صاحب۔ میں چلی جاؤں گی تو تمہیں غم نہ ہوگا؟‘‘۔
’’اے صاحب، آپ خدا نخواستہ کہاں دور چلی جارہی ہیں۔ اور حویلی ہی تو ہے کوئی بندی خانہ تھوڑی ہے‘‘۔ نواب مرزا نے ماں کے گلے میں ہاتھ ڈال دیئے۔ ’’یاد تو آپ ہر ہی وقت آویں گی‘‘۔ اس کی آنکھیں چھلکنے کو آگئیں۔ ’’لیکن سکھ چین آرام، آپ کی زندگی میں ان چیزوں کے لئے بھی تو کوئی جگہ ہو‘‘۔
’’جسے اولاد کا سکھ نہیں، اسے پھر کاہے کا سکھ؟‘‘ وزیر نے ذرا چڑچڑے انداز میں کہا۔
’’لیجئے آپ تو ہر بات کو بڑھا چڑھا کر کہتی ہیں۔ ہم لوگ آپ ہی کے قدموں سے تو لگے رہیں گے، تھوڑی دور ہی سہی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment