سرفروش

عباس ثاقب
امر دیپ نے اپنے باپ کی تائید کی ’’پھپھڑ جی، اب تو پنجاب کے سارے زمیندار اس طرف آرہے ہیں۔ ہمارے علاقے کے پھلوں کو سب شہروں میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے‘‘۔
الکھ سنگھ نے نیم دلی سے کہا ’’لیکن پیڑ اگنے اور پھر ان پر پھل آنے میں تو کئی سال لگ جائیں گے۔ اور اس کے لیے کافی رقم بھی درکار ہوگی‘‘۔
براہم دیپ نے کہا ’’الکھ بھائی، راتوں رات تو گیہوں کی فصل بھی نہیں اگتی۔ دو تین سال کے صبر سے تمھارے ٹبّر کی زندگی بھی تو بدل جائے گی۔ اچھا ایسا کر، تمہارے باغ لگانے کے لیے سارا خرچ امر دیپ دے گا۔ تم بعد میں کماکر لوٹا دینا‘‘۔
امر دیپ نے باپ کی تائید کی ’’پھپھڑ جی، آپ اگلے دو سال کے لیے گھر چلانے کا خرچہ بھی مجھ سے لے لو۔ جب آپ کے باغوں میں پھل آئیں تو آپ وہ مجھے فروخت کر دینا اور میں پھلوں کی خرید کی رقم میں کٹوتی کر کے آپ سے قسطوں میں اپنی ساری رقم وصول کرلوں گا‘‘۔
براہم دیپ اپنے بیٹے کی بات سن کر خوش ہوگیا اور الکھ دیپ سے کہا ’’لے اب بتا، امر دیپ نے تو سارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔ تیری جیب سے ایک پیسہ نہیں جائے گا اور تیری نسلوں کی زندگی سدھر جائے گی‘‘۔
الکھ سنگھ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا ’’یہ تو واقعی بہت اچھا کام ہوجائے گا۔ میں جاکر اپنے بیٹوں کو بتاتا ہوں‘‘۔ پھر اس نے امر دیپ سے مخاطب ہوکر کہا ’’بہت مہربانی امر دیپ بیٹا، تم ایسا کرو مجھے گھر کے خرچے کے لیے ابھی کچھ پیسے دے دو۔ میرا ہاتھ کافی تنگ ہو رہا ہے‘‘۔
اس کی بات سن کر امر دیپ نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پھر غالباً کوئی خفیہ اشارہ پاکر اپنے پھوپھا کو کہا ’’ٹھیک ہے، آپ پتا جی سے بات کرو، میں ابھی واپس آتا ہوں‘‘۔
امر دیپ گھر کے اندرونی حصے میں چلا گیا اور دونوں بزرگ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ میں بھی درمیان میں لقمے دیتا رہا۔ اس دوران میں امر دیپ واپس آگیا اور نوٹوں کی ایک گڈی الکھ سنگھ کے حوالے کر دی۔ وہ بے تابی سے نوٹ گننے لگا۔ پھر اس نے قدرے مایوس لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو صرف پندرہ سو ہیں۔ پانچ سات ہزار کر دیتے تو…‘‘۔
امر دیپ نے قدرے سخت لہجے میں اس کی بات کاٹ کر کہا ’’میں گھر پر زیادہ رقم نہیں رکھتا۔ ابھی گزارا کرلیں۔ دو تین دن میں سونام قصبے جاؤں گا تو بینک سے اور رقم لادوں گا‘‘۔
الکھ سنگھ نے رقم جیب میں رکھتے ہوئے مردہ لہجے میں کہا ’’چلو ٹھیک ہے… وہ اصل میں ضرورت تھی۔ نہال سنگھ کی جیپ گروی سے چھڑانی ہے۔ بنیا ضبط کرنے کی دھمکی دے رہا ہے‘‘۔
امر دیپ نے کہا ’’اچھا آپ پرسوں صبح تک صبر کرلیں۔ میں آڑھتیوں سے پیشگی رقوم لینے کل پٹیالا جارہا ہوں۔ واپسی پر چھ یا سات ہزار، جتنے کی ضرورت ہو لے لینا‘‘۔
یہ سن کر الکھ سنگھ خوش ہوگیا اور کچھ ہی دیر بعد اجازت لے کر وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد امر دیپ نے باپ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’پتا جی، میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا؟‘‘۔
براہم دیپ نے شفیق لہجے میں کہا ’’نہیں پتر، کم ظرف سا بندہ ہے، لیکن تمہاری بوا کا گھر والا رہ چکا ہے۔ تمہارے پھوپھی زاد بھی نکمے ہونے کے باوجود ہم پر حق رکھتے ہیں۔ واہگورو نے ہمیں اتنا دیا ہے۔ تبھی تو ہم اس جیسوں کی کچھ مدد کرنے کے قابل ہیں‘‘۔
بشن دیپ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ’’ویسے تو مجھے الکھ پھپھڑ اور اس کے بیٹوں سے کوئی اچھی امید نہیں ہے۔ لیکن امر دیپ بھائیا آپ نے رقم دینے کا یہ راستہ نکال کر اچھا ہی کیا۔ یہ آج بھی حسبِ معمول قرض مانگنے ہی آئے تھے، اور پہلے کی طرح واپسی کا تو کوئی ذکر نہ ہوتا۔ اب ان سے کچھ نہ کچھ وصولی کی امید تو کی جا سکتی ہے‘‘۔
بشن دیپ کی بات سن کر سب نے زور دار قہقہہ لگایا۔ رات کا کھانا میں نے تمام گھر والوں کے ساتھ مل کر کھایا۔ ماحول بہت خوش گوار تھا۔ لیکن پھر بشن دیپ نے الکھ سنگھ کے ساتھ ہونے والے غیر تحریری معاہدے کا
ذکر چھیڑ دیا۔ بس پھر کیا تھا، دستر خوان پر جیسے طوفان آگیا۔ معاہدے کی جزویات سے واقف ہوتے ہی بزرگ سردارنی اپنے شوہر اور بڑے بیٹے پر چڑھ دوڑی ’’آپ لوگوں کے پاس اتنی فالتو دولت ہے تو مجھے دے دو، اپنے بھتیجے کو دے آؤں گی۔ بڑے ٹبّر والا ہے، ہاتھ تنگ رہتا ہے۔ ہٹی (دکان) میں مال ڈال لے گا۔ اس الکھ سنگھ کا کتنا بھی پیٹ بھردو، یہ تمہاری جڑیں کاٹنے سے باز نہیں آئے گا‘‘۔
یہ سن کر براہم دیپ سنگھ نے دفاعی لہجے میں کہا ’’ایسی بات کیوں کرتی ہو نیک بخت۔ واہگورو نہ کرے تمہارے بھتیجے کو ہم سے روپیہ پیسہ لینے کی ضرورت پڑے۔ اس کا کاروبار چنگا بھلا چل رہا ہے۔ ویسے بھی وہ خود دار جوان ہے۔ بھوکا مرجائے گا، اپنی بوا کے سسرال کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے گا‘‘۔
براہم دیپ اور اس کے بیٹوں کی کوشش سے بالآخر بڑی بی کا غصہ کچھ کم ہوا۔ لیکن الکھ سنگھ کے لیے اس گھر میں ابھی لعنت ملامت کا کوٹا ختم نہیں ہوا تھا۔ چائے کا دور شروع ہونے پر امر دیپ اپنے پہلو میں بیٹھے چھوٹے بھائی کو سرگوشیوں میں الکھ سنگھ کی میرے بارے میں شر انگیز گفتگوکا احوال بتا رہا تھا کہ بشن دیپ کی طرف سے اپنے پھوپھا کے خلاف باآواز بلند ناراضی کے اظہار سے بڑی سردارنی اور ان کی بہو کے کانوں میں بھی معاملے کی بھنک پڑگئی اور انہوں نے پورا قصہ سن کر دم لیا۔ بس پھر کیا تھا۔ الکھ دیپ کے خلاف نفرت کی دبی ہوئی چنگاری ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔
اس بار سردارنی کی بہو بھی الکھ سنگھ کی غائبانہ خاطر تواضع کر رہی تھی۔ براہم دیپ اور بیٹوں کی طرف سے خاصی دیر کوشش کرنے کے بعد کہیں الکھ سنگھ کے خلاف ان کے زہر اگلنے کا سلسلہ تھما۔
کھانے اور چائے سے فار غ ہونے کے بعد امر دیپ نے مجھے جلد سوجانے کا مشورہ دیا، کیونکہ ہمیں علی الصباح پٹیالا روانہ ہونا تھا۔ بشن دیپ مانو کے ساتھ میرے کمرے میں میرے ساتھ آیا اور کچھ دیر خوش گپیاں کرنے کے بعد مانو کو لگ بھگ زبردستی ساتھ لے کر رخصت ہوگیا۔
میں بستر پر لیٹ کر خاصی دیر موجودہ صورتِ حال پر غور کرتا رہا۔ مجھے الکھ سنگھ کے بارے میں سوچتے ہوئے کوفت کے ساتھ تشویش بھی محسوس ہوئی۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھ سے بغض رکھنے والا یہ شکی مزاج شخص میری رازداری کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے اور مجھے اس کی طرف سے احتیاط برتنی چاہیے۔ بالآخر مجھے نیند آگئی اور میں خاصی پرسکون اور گہری نیند سویا۔ لہٰذا جب امر دیپ مجھے بیدار کرنے آیا تو میں فوراً اٹھ بیٹھا۔ ’’جیپ کل رات سے ہی تیار ہے جوان۔ اب نکل چلو!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment