احمد نجیب زادے
ایران میں سرگرم شدت پسند تنظیم جیش العدل نے مغوی بنائے گئے ایک درجن ایرانی عسکری کمانڈرز اور محافظوں کی دو تصاویر جاری کردی ہیں اور اس بات کا اعلان کیا ہے کہ تمام مغوی زندہ ہیں۔ ایرانی حکام نے ان تصاویر کے اجرا پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ایرانی فوجی اور کمانڈرز بخیریت ہیں۔ اس سلسلہ میں اعلیٰ ایرانی عسکری کمانڈرز نے ایک بار پھر اپنا دعویٰ دہرایا ہے کہ ایرانی سیکورٹی فورسز، پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی حکام کی مدد سے جیش العدل کے ہاتھوں مغوی بنائے گئے کمانڈرز اور فوجیوں کو بازیاب کرا لیں گی۔ لیکن 12 فوجیوں اور ان کے کمانڈرز کے اغوا کو پورا ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود جیش العدل کے ہاتھوں مغوی بنائے گئے ایرانیوں کا کوئی سراغ تک نہیں لگایا جاسکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان ایرانی مغوی فوجیوں اور کمانڈوز کو پاک ایران سرحدی علاقے میں سنگلاخ پہاڑوں پر رکھا گیا ہے۔ العربیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جیش العدل کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مغوی ایرانی عسکری کمانڈرز جن کا تعلق پاسدارن انقلاب سے ہے، ان کے نام محمود ہارموزی، بہروز ریگی، عبد الکریم ریگی، سعید ریگی، رسول گمشاد زاہی، ماجد ناروئی اور بہروز ریگی بتائے گئے ہیں۔ ناموں کی تصدیق ایرانی حکام نے بھی کردی ہے جبکہ اس ٹیلگرام اکائونٹ پر دی جانے والی دوسری تصویر میں موجود ایرانی اسپیشل کمانڈوز/ مغویوں کے نام پدرم موسوی، فریدانی حیدری، مہر داد آبان، عباس عابدی، محمد سادہ معتمدی اور بابائے کیانش بتائے جاتے ہیں۔ مغویوں کی پہلی خیریت کی اطلاع پر ایرانی وزارت خارجہ میں معاون برائے سرحدی امور شہریار حیدری نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں اظہار اطمینان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایرانی حکام پاکستانی حکومت کے ساتھ کوششیں کرکے ان مغویوں کو رہائی دلوائیں گے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے لکھا ہے کہ شدت پسند تنظیم جیش العدل کی جانب سے ایرانی علاقے کے اندر سرحدی چوکی بدر تھری پر منظم انداز اور چہار اطراف سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں چھ ایرانی کمانڈوز/ اسپیشل آپریشن گروپس سمیت پاسداران انقلاب کے چھ اہلکاروں کو بے دست و پا کرکے ان کا اسلحہ اور کمیونی کیشن آلات قبضہ میں لے لئے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایرانی کمانڈرز نے حسب معمول پاکستانی علاقے میں جیش العدل کے جنگجوئوں کی موجودگی کا الزام لگایا تھا اور دہشت گرد گروہوں کیخلاف از خود کارروائیوں کا اعلان بھی کیا تھا۔ اغوا کی کارروائی کو ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی سیستان اور بلوچستان کے ایرانی علاقوں اور متصل پہاڑی سلسلوں میں ایرانی مغوی اہلکار نہیں مل سکے۔ لیکن ٹیلیگرام پر ایرانی مغویوں کی تصاویر کی موجودگی سے اس بات کا اطمینان کیا گیا ہے کہ ایرانی مغوی گارڈز خیریت سے ہیں۔ اس سلسلہ میں جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایرانی مغوی زمین پر اپنے چھینے جانے والے اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ موجود ہیں۔ غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ ماضی میں سرگرم شدت پسند تنظیم جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ایرانی حکومت نے پاکستانی مدد سے گرفتار کرکے پھانسی کی سزا دیدی تھی اور اعلان کیا تھا کہ اس نے دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے لیکن اب جیش العدل نے ایرانی حکومت کیخلاف ہتھیار اٹھالئے ہیں۔ ماضی میں ایرانی سیکورٹی فورسز اور جیش العدل کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوچکے ہیں جس میں فریقین کے درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام حملے ایرانی سرحدوں کے اندر ہوئے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سیستان اور بلوچستان صوبہ جات ایرانی جنوب مشرقی سرحد پر سب سے غیرمحفوظ علاقہ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی بنیاد پر شدت پسند تنظیموں نے ایرانی افواج کیخلاف بڑے پیمانے پر ہتھیار اٹھائے ہیں اور ایرانی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ سماجی رابطوں کی سائٹ ٹیلیگرام کے بعد ٹوئٹر پر موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ جیش العدل نے اپنی پوسٹ میں مغوی بنائے جانے والے کمانڈرز اور فوجیوں کی تصاویر اور ان سے چھینا گیا اسلحہ اور دیگر سامان کی دو تصاویر بھیجی ہیں اور دعویٰ کیا کہ گروپ ان ایرانیوں کے نام شائع کررہا ہے جن کو 16 اکتوبر کو ایرانی سرحد کے اندر لولکدان، ریگ مالک ضلع میں فوجی چوکی پر حملہ کرکے اغوا کیا گیا تھا۔ اس فوجی چوکی کوایرانی حکام نے ’’بدر بیس تھر ی‘‘ سے موسوم کیا ہے۔
٭٭٭٭٭