لندن میں چاقوبردار حملوں کی یومیہ تعداد41 تک جاپہنچی

سدھارتھ شری واستو
برطانوی دارالحکومت لندن میں چاقو بردار حملوں کی یومیہ تعداد 41 تک پہنچ گئی۔ برطانوی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ لندن چھری بازوں کا گڑھ بن چکا ہے اور روز بروز ایسے مجرموں اور خنجر برداروں کے حملوں میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے، جس سے لندن مقامی اور غیر ملکیوں کیلئے غیر محفوظ تصور کیا جارہا ہے ۔کرائم نیشنل ڈپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کا شماریاتی جائزہ بتاتا ہے کہ 2017ء میں لندن میں چھری بازوں نے 15 ہزار وارداتیں کی ہیں اور شہریوں کو لوٹ لیا، جبکہ مزاحمت پر سینکڑوں افراد کو قتل او ر زخمی بھی کیا گیا۔ چھری بازوں کے روزانہ کارروائیوں کا اوسط 41 حملے ہیں جن کو روکنے میں لندن پولیس یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ لندن کے مقامی جریدے ڈیلی ایکسپریس نے بتایا ہے کہ پولیس نے ایک سال میں 14,987 چھری بازوں کے حملوں کو ریکارڈ کیا ہے، جس میں لوٹ مار کی وارداتیں سر فہرست ہیں۔ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ہر سال ایسی وارداتوں میں 15% فیصد اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے، جس میں چھری باز نوجوانوں نے معمر اور جوان شہریوں کولوٹ لیا ہے۔ کرائم نیشنل اسٹیٹ اسٹکس نے بتایا ہے کہ ایک سال کی مدت میں خنجر برداروں نے 91 شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے، جبکہ چھری دکھا کر زیادتی کے واقعات کی تعداد 200 سے زائد ہے اور8,363 وارداتیں چھینا جھپٹی اور اے ٹی ایم کی لوٹ مار سے متعلق بتائی جاتی ہیں۔ برطانوی جریدے ایویننگ اسٹینڈرڈکے رپورٹر مارٹن بنتھم کا کہنا ہے کہ نیشنل ہیلتھ سروس کے طبی عملہ اور ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ چھری بازوں کی کارروائیوں میں شدید زخمی ہونے والے افراد خاص قسم کے ٹراما/ صدمہ کا شکار ہوئے ہیں اور اپنی باقی ماندہ زندگی میں اس حوالہ سے خوف کے سائے میں گزار رہے ہیں۔ متاثرین روز مرہ کے کاموں کو درست طور سے انجام تک نہیں دے رہے ہیں، جبکہ حملوں کا شکار طلباو طالبات کہیں چھری یا خنجر دیکھتے ہی پریشان ہوجاتے ہیں اور ان کے تعلیمی سلسلہ میں شدید بگاڑ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ چھری بازوں کے حملوں میں شدید زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد 5,570 بتائی جاتی ہے اور عام زخمیوں کی تعداد 9,435 ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس نے بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ خنجر برداروں کو روکنے کیلئے کی جانے والی تمام کوششیں بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ اگر چہ پولیس نے 2,000 سے زائد نوجوانوں کو باقاعدہ وارداتوں کے دوران کیمروں کا جال بچھا کر گرفتار کیا ہے، لیکن ایسی وارداتیں اب بھی عروج پر ہیں، جس سے لندن کی میٹروپولیٹن پولیس اور میئر لندن صادق خان پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ لندن میں خنجر کے حملوں کا علاج کرنے والے ٹراما کنسلٹنٹ/ ایکسپرٹ ڈاکٹر روز ڈیونپورٹ نے بتایا کہ پہلے ہم جن چھری بازوں کے حملوں کا شکار زخمیوں کا علاج کرتے تھے ان کے جسم پر خنجر کے ایک یا دو نشان ہوتے تھے لیکن اب ہم جن زخمیوں کو آپریشن تھیٹر میں لاتے ہیں تو ان کے جسموں پر پانچ دس نشان یا زخم لگے ہوتے ہیں، جس سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ چھری باز خود بھی جنونی ہوچکے ہیں اور مال لوٹنے یا مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ہدف کو ہر قیمت پر چھریاں مارتے ہیں تاکہ وہ انتہائی ڈر اور خوف کا شکار ہوجائے اور مزاحمت کے لائق نہ رہے۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس ڈیپارٹمنٹ کا اس ضمن میں ماننا ہے کہ پولیس نے خطرناک وارداتوں کی روک تھام کیلئے ایک اسکواڈ ’’اینٹی نائف کرائم اسکواڈ‘‘ بنایا ہے لیکن اب تک کی کارروائیوں کے نتائج کے اعتبار سے اس اسکواڈ کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ لندن پولیس کی ایک سینئر آفیسر کریسیڈا نے اس صورت حال کو انتباہی قرار دیا ہے اور میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ زیادہ تر وارداتوں کا محورگرمیوں کے موسم میں لوٹ مار کا تھا۔ مس کریسیڈا کہتی ہیں کہ شماریاتی جائزوں کے مطابق چھریوں اور خنجروں سے کئے جانے والے حملوں 68 حملے قتل کے ادارے سے کئے گئے، لوٹ مار اور حملوں میں شدید زخمی کرنے کے واقعات کی تعداد 5,570 رہی، جبکہ چھری بازوں نے 8,363 افراد کو تیز دھار چھریاں اور خنجر دکھا کر نقد رقوم اور سامان چھینا۔ 170خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ چھری دکھا کر زیادتی کی گئی، جبکہ 725 کیسوں میں مرد و خواتین کو چھری سے قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ لندن مں چھری بازوں کی کارروائیوں کے بارے میں پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ان حملوں اور وارداتوں میں بلیڈز یا تیزدھار آہنی پٹیوں کی وارداتوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور ایسی بلیڈز والی وارداتوں کا الگ ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے جو گزشتہ چھ ماہ میں 3,209 ریکارڈ کی گئی ہیں۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ آتشیں اسلحہ کی نسبت چاقوئوں اور چھریوں کا استعمال ایک عام پریکٹس ہے، جس میں نوجوانوں کی دلچسپی زیادہ ہے کیوںکہ تیز دھار چھری دیکھنے والا فرد پہلے ہی خوفزدہ ہوجاتا ہے اور لوٹ مار میں یکسر مزاحمت نہیں کرتا۔ اس ضمن میں پولیس تحقیقات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چھری باز نوجوان اسکوٹرز پر بیٹھ کر آتے ہیں اور واردات انجام دے کر تیزی سے فرار ہوجاتے ہیں۔ برطانوی نیشنل ہیلتھ کرائم سروس کے مطابق 2015ء میں گیارہ ریجنل ٹراما سینٹرز میںچھری بازوں کے حملوں کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد 1,697 رہی، جبکہ 2016 میں چھری کے حملوں کے 2,278 شدید زخمیوں کو ٹراما سینٹرز میں طبی امداد فراہم کی گئی لیکن 2017 میں ایسے شدید زخمیوں کی تعداد5,570 رہی، جن کو چھریوں کے وار سے ہلاک کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment