ڈیرہ غازی خان کے فنکار حکومتی سرپرستی کے منتظر

نمائندہ امت
ڈیرہ غازی خان جیسے پسماندہ علاقے کے ایک آرٹسٹ رؤف خالد کسی انسٹیٹیوٹ سے باقاعدہ تربیت حاصل کئے بغیر پلاسٹر آف پیرس سے بہترین مجسمے بناتا ہے۔ اس نے اپنی ماں کی محبت میں سب سے پہلے ان ہی کا مجسمہ بنا کر سب کو حیران کردیا تھا۔ اسی علاقے کے ایک اور آرٹسٹ اللہ بچایا مٹی سے کئی قومی شخصیات کے مجسمے اور قومی و عالمی عمارتوں کے ماڈل بناتا ہے۔ وہ اپنے مٹی کے فن پاروں کو بھٹی میں پکا کر ان کی لاہور سمیت کئی شہروں میں نمائش بھی کرچکا ہے۔ دونوں آرٹسٹ بنیادی طور پر وسائل کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اگر متعلقہ سرکاری ادارے ان کی سرپرستی کریں تو وہ اس فن میں مزید مہارت حاصل کرکے ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ پر پلاسٹر آف پیرس سے مجسمہ سازی کرنے والے رؤف خالد کو مالی وسائل کے علاوہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کیلئے جگہ کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ ان دنوں وہ ایک درویش روحانی بابا کا خیالی مجسمہ بنانے میں مصروف ہے۔ اس کو بچپن سے ہی مجسمہ سازی کا شوق تھا۔ پہلے وہ اپنے گھر کی چھت پر یہ کام کرتا رہا۔ لیکن جب دوستوں اور ملنے والوں کا رش بڑھنے لگا تو اس نے ایک دوست کے مشورے پر گلی میں یہ کام شروع کردیا۔ گلی میں محنت سے بنائے گئے مجسمے کو نقصان پہنچنے یا توڑ پھوڑ کا بھی خطرہ موجود ہے۔ لیکن اس کا غریب فنکار کے پاس کوئی دوسرا حل بھی نہیں۔ رؤف خالد کے مطابق اس کی والدہ نے اسے اپنا مجسمہ بنانے سے منع بھی کیا، لیکن جب بن گیا تو سب گھر والے بہت خوش اور حیران ہوئے۔
اللہ بچایا بنیادی طور پر مٹی کے برتن بنانے والا کمہار ہے۔ لیکن وہ عام کمہاروں سے بالکل مختلف کام کرتا ہے۔ اس نے اب تک مٹی سے قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر شخصیات کے مجسمے بنائے ہیں۔ جبکہ خانہ کعبہ، مسجد نبوی اور اہرام مصر سمیت کئی عمارتوں کے ماڈل بنا چکا ہے۔ وہ مٹی سے بنائے گئے اپنے فن پاروں کو بھٹی میں پکاتا بھی ہے۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جواں سال فنکار رؤف خالد سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ …’’بچپن میں مجھے مصوری کا شوق تھا، پنسل سے تصاویر بناتا تھا۔ میں خوش خط بھی تھا۔ میٹرک سے پہلے ہی ایک استاد کے کہنے پر خوش خطی کی کلاس لینا شروع کردی تھی۔ جب پلاسٹر آف پیرس سے مجسمے بنانے کا خیال آیا تو ملتان کے ایک مجسمہ ساز، استاد صادق علی شہزاد سے فیض حاصل کیا اور اس کے بعد گھر کی چھت پر اپنی والدہ کا مجسمہ بنانا شروع کردیا۔ والدہ اور گھر والوں نے منع کیا، لیکن میں اپنی دھن میں لگا رہا۔ یہ اتنا مہنگا کام نہیں ہے، نہ زیادہ اخراجات آتے ہیں، لیکن وقت بہت لگتا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ جگہ کی کمی ہے۔ جب کام کرتا تھا تو گھر کی چھت پر دوست احباب بھی آجاتے تھے۔ گھر میں جگہ کی کمی کی وجہ سے مجبوراً گلی میں کام شروع کرنا پڑا۔ کیونکہ پلاسٹر آف پیرس کو گوندھنے اور مجسموں کی تراش خراش کیلئے کافی جگہ درکار ہوتی ہے۔‘‘ رؤف خالد نے بتایا کہ اس کا گھر ڈیرہ غازی خان کے علاقے شاکر ٹاؤن میں ہے۔ وہ صبح سے رات گیارہ بجے تک مختلف اکیڈمیز اور گھروں میں خوش نویسی سکھاتا ہے اور بہت سا وقت اس سفر میں ضائع ہوجاتا ہے۔ پھر گلی میں ہر وقت کھڑے ہوکر کام بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر اس کو مناسب جگہ مل جائے تو وہ یہ کام بہت اچھے انداز میں کرسکتا ہے۔ رئوف نے بتایا کہ اب تک اس نے جو کام کیا ہے، وہ پورٹریٹ سائز میں ہے۔ لیکن اب وہ ایک قد آدم مجسمے پر کام کررہا ہے جس کو مکمل کرنے میں دو سے تین ماہ لگ جائیں گے کیونکہ وہ زیادہ وقت اس کام کو نہیں دے پاتا ہے۔ رؤف خالد کے مطابق وہ اپنے مجسمہ سازی کے شوق کو روزگار کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتا۔ اگر حکومت اس کے روزگار کا مسئلہ حل کردے تو وہ اس فن کے ذریعے پاکستان کا نام روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ غریب فنکار کا کہنا تھا کہ میڈیا کے علاوہ ابھی تک کسی ادارے نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
مجسمے اور عمارتوں کے دلکش ماڈل بنانے والا فنکار اللہ بچایا بنیادی طور پر کمہار ہے۔ اس کا پیشہ تو ظروف سازی ہے۔ لیکن اس نے مٹی سے درجنوں شخصیات کے مجسمے اور عمارتوں کے ماڈل بنائے ہیں۔ وہ ان فن پاروں کو آگ کی بھٹی میں پکاکر پختہ کرنے کے بعد ان کی نمائش بھی کرچکا ہے۔ اللہ بچایا کو پنجاب آرٹ کونسل ڈیرہ غازی خان کے پروگرام آفیسر فضل کریم کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ فورٹ منرو اور آرٹ کونسل ڈیرہ غازی خان سمیت جناح پارک لاہور میں اس کے فن پاروں کی نمائش ہوچکی ہے۔ اب وہ فضل کریم کی مدد سے لوک ورثہ اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ روضہ رسول، خانہ کعبہ، اہرام مصر، شاہی مسجد، تاج محل اور شاہ رکن عالم کے مزار کے فن پارے اب بھی اس کے پاس موجود ہیں۔ فائن آرٹ کے دلدادہ کچھ خریداروں نے اللہ بچایا سے رابطہ کیا، جس پر اس نے جانوروں کے مجسموں سمیت بعض فن پارے فروخت بھی کئے ہیں۔ اللہ بچایا کے بھی کوئی اخراجات نہیں، لیکن روزگار کے مسائل اس کو بھی درپیش ہیں۔ ان دنوں وہ شاہ رکن عالم کا مقبرہ بنانے میں مصروف ہے۔
پنجاب آرٹس کونسل ڈیرہ غازی خان کے پروگرام آفیسر فضل کریم نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’رئوف خالد اور اللہ بچایا شوقیہ فنکار ہیں، جو غم روزگار کو پس پشت ڈال کر نہ صرف اپنے شوق کی تسکین کررہے ہیں بلکہ معاشرے کو آرٹ کے بہترین نمونے بھی پیش کررہے ہیں۔ ان کی سرپرستی ہونی چاہئے اور ہم اپنے محدود وسائل میں ایسا کر بھی رہے ہیں۔‘‘
رؤف خالد نے اپنی والدہ کا مجسمہ گھر میں رکھا ہوا ہے جبکہ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے دیگر تمام مجسمے گلی میں رکھے ہیں۔ اگر وقت میسر ہو تو ایک مجسمہ چند دن میں تیار ہوسکتا ہے، لیکن رئوف فارغ اوقات میں یہ کام کرتا ہے۔ ابھی تک کسی بڑے آدمی نے نہ اس سے مجسمہ بنوایا ہے، نہ ہی خریدا ہے۔ البتہ گلی سے گزرنے والے لوگ اس کے فن پاروں کو تجسس سے ضرور دیکھتے ہیں اور سوالات بھی کرتے ہیں۔ محلے والوں کو اس کے گلی میں کام کرنے پر اس لئے اعتراض نہیں کہ وہ اسی محلے میں پلا بڑھا ہے۔ لوگ اس فنکار کی مجبوریاں بھی سمجھتے ہیں اور اس کے شوق سے بھی واقف ہیں۔ اپنی والدہ کا مجسمہ بنانے میں رؤف خالد کو کئی ماہ لگے، کیونکہ یہ پہلا کام تھا۔ لیکن اب وہ ایسا مجسمہ چند دن میں بناسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment