خودسوزی کرنے والا رکشہ ڈرائیور یورپ میں بھی مقیم رہا

خالد زمان تنولی
ٹریفک پولیس کے ہتک آمیز رویے اور بے جا چالان سے تنگ آکر خود سوزی کرنے والا 28 سالہ رکشہ ڈرائیور خالد ولد محمد یوسف گزشتہ روز دوران علاج دم توڑ گیا۔ متوفی حافظ قرآن تھا جو ٹریفک پولیس اہلکار کا نا روا سلوک اور رشوت دینے پر مجبور کرنا برداشت نہ کرسکا۔ متوفی کے اہلخانہ کے بقول وہ دینداری کی وجہ سے رشوت خوری کے سخت خلاف تھا۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ شوت لینے والا اور دینے والا دونوں یکساں گناگار ہوتے ہیں۔ متوفی کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اردن کے شاہی خاندان کے پاس بھی ملازمت کرچکا تھا جہاں وہ شاہی محل میں ’’ٹی بوائے‘‘ (چائے سرو کرنے والا) تھا۔ اس کے علاوہ خالد ویانا، آسٹریا، سائوتھ افریقہ اور عراق میں بھی روزگار کے سلسلے میں مقیم رہا تھا۔ اسے انگریزی اور چائینز سمیت پانچ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وطن واپس لوٹ کر وہ رکشہ چلانے لگا۔
واضح رہے کہ 20 اکتوبر کو صدر تھانے کے باہر ایک رکشہ ڈرائیور خالد نے ٹریفک پولیس اہلکار سے تلخ کلامی کے بعد خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگالی تھی، جسے زخمی حالت میں سول اسپتال منتقل کیا گیا تھا، تاہم اتوار اور پیر کی درمیانی شب وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے متوفی کے بھائی عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں واقعے والی روز رات کو تقریباً نو بجے اطلاع ملی کہ خالد نے خود کو آگ لگالی ہے اور سول اسپتال برنس وارڈ میں زیر علاج ہے ، اطلاع ملتے ہی میں اپنے دیگر رشتہ داروں کے سول اسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ میرا چھوٹا بھائی پچاس فیصد سے بھی زائد جھلس چکا ہے۔ زخمی خالت میں اس نے بتایا کہ صدر ٹریفک چوکی کا پولیس اہلکار اس سے آئے روز رشوت طلب کرتا تھا، آج وہ پچاس روپے طلب رہا تھا اور انکار پر چالان کردیا، جبکہ رکشہ بھی چوکی میں بند کر لیا تھا۔ خالد کا کہنا تھا کہ ٹریفک پولیس کے اس رویہ سے تنگ آکر اس نے اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی محمد حنیف کی موجود گی میں خود کو آگ لگا دی۔ میرا بھائی حافظ قرآن پاک اور میٹرک پاس تھا۔ پانچوں بھائیوں میں سب سے ذہین اور سمجھدار ہونے کے ساتھ ساتھ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، جس کی وجہ سے کم عمری میں ہی عراق، اردن، آسٹریا، ویانا اور ساؤتھ افریقہ میں نوکریاں کر چکا تھا۔ اردن کے شاہی محل میں وہ دو سال ٹی بوائے کی جاب کر چکا تھا۔ لیکن اپنے ملک سے محبت کی خاطر واپس کراچی آکر رکشہ چلا نے لگا تھا۔‘‘ دوسری جانب اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ رکشہ ڈرائیور خالد پچاس فیصد سے زائد جھلس چکا تھا۔ وہ دو دن تک زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد جان کی بازی ہار گیا۔ متوفی نے خودسوزی سے قبل اپنے خط میں تحریر کیا تھا کہ وہ خودکشی گھریلو پریشانی یا کسی اور وجہ سے نہیں کر رہا، بلکہ اے ایس آئی سارجنٹ محمد حنیف نے اْس سے 50 روپے رشوت طلب کی اور انکار پرزبردستی چالان کر کے اس کا رکشہ بند کر دیا تھا۔ جبکہ ٹریفک پولیس کا موقف تھا کہ رکشہ ڈرائیور خالد کا 170 روپے کا چالان کیا گیا تھا، جس پر اس نے خوسوزی کی۔ رکشہ ڈرائیور کی خود سوزی پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے نوٹس لے کر ڈی آئی جی ٹریفک کراچی سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔ دوسری جانب واقعے کے بعد ایس ایس پی ٹریفک نے چالان کرنے والے اے ایس آئی حنیف کو معطل کردیا تھا۔ اتوار کے روز کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے سول اسپتال میں زیرِ علاج رکشہ ڈرائیور کی عیادت بھی کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے ٹریفک اہلکاروں کو ہدایت کی تھی کہ رکشے والوں کا 100 سے 150 روپے سے زائد کا چالان نہ کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی رکشے والا چالان نہ بھرسکا تو وہ خود بھریں گے۔ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا تھا کہ ٹریفک پولیس اہلکار ناانصافی کریں تو ہمیں بتائیں، کسی نے بھی ناانصافی کی تو اس کے خلاف ایکشن لیں گے۔ واقعے کے ذمہ دار ٹریفک پولیس اہلکار کو معطل کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ٹریفک پولیس اہلکار کے خلاف متوفی کے بھائی عبدالعزیز کی مدعیت میں صدر تھانے میں مقدمہ الزام نمبر 274/2018 درج کر لیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment