مشکلات و مصائب سے کیسے نجات پائیں؟

چند اعمال قرآنی
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر!) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتار دیا ہے جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ چناں چہ حقیقت یہ ہے کہ مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے، یقیناً مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ (سورۃ الم نشرح)
اس سورت میں رب تعالیٰ نے آپؐ پر اپنا احسان، تنگی کے بعد فراخ دلی اور آپؐ کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا ذکر کیا ہے، چناں چہ اس میں خود آپ کی ذات اور امت کے لئے بھی خوشخبری اور بشارت موجود ہے اور وہ یہ کہ ہر تنگی کے بعد آسانی اور راحت ضرور آتی ہے۔
رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور جو کوئی خدا سے ڈرے گا، خدا اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا، جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا اور جو کوئی خدا پر بھروسہ کرے، تو خدا اس (کا کام بنانے) کے لئے کافی ہے۔‘‘
رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) کیا خدا تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟‘‘
سورئہ انعام میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے اس وقت کون تمہیں نجات دیتا ہے جب تم اسے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارتے ہو، (اور یہ کہتے ہوکہ) اگر اس نے ہمیں اس مصیبت سے بچالیا تو ہم ضرور بالضرو شکر گزار بندوں میں شامل ہو جائیں گے؟‘‘ کہو: ’’خدا ہی تمہیں اس مصیبت سے بھی بچاتا ہے اور ہر دوسری تکلیف سے بھی، پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔‘‘
سورہ نمل میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بے قرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) خدا کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ نہیں! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔‘‘
رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ: مجھے تعجب ہے اس مصیبت زدہ پر جو کہ قرآن مجید کے ان (مندرجہ ذیل) پانچ مقامات کے پڑھنے سے غافل رہے حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ رب تعالیٰ نے اس کے پڑھنے والے کے لئے کیا بدلہ اور اجر و ثواب رکھا ہے۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوش خبری سنا دو، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم سب خدا ہی کے ہیں اور ہم کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں۔‘‘
ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً خدا سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو برے برے منصوبے بنا رکھے تھے، خدا نے اس (مرد مومن) کو ان سب سے محفوظ رکھا۔‘‘
ترجمہ: ’’اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی حضرت یونسؑ) کو دیکھو! جب وہ خفا ہو کر چل کھڑے ہوئے تھے اور یہ سمجھے تھے کہ ہم ان کی کوئی پکڑ نہیں کریں گے، پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ: ’’(خدایا!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے۔ بے شک میں قصور وار ہوں۔‘‘
ترجمہ:’’اس پر ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں گھٹن سے نجات عطا کی اور اسی طرح ہم ایمان رکھنے والوں کو نجات دیتے ہیں۔‘‘
ترجمہ: ’’ان کے منہ سے جو بات نکلی، وہ اس کے سوا نہیں تھی کہ وہ کہہ رہے تھے: ’’ہمارے پروردگار! ہمارے گناہوں کو بھی اور ہم سے اپنے کاموں میں جو زیادتی ہوئی ہو اس کو بھی معاف فرما دے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرمادے۔ ‘‘ چناں چہ خدا نے انہیں دنیا کا انعام بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی اور خدا ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ’’جس نے بھی تکالیف اور مصائب کے وقت ان (مندرجہ بالا) آیات کے (معافی کے استحضار کے ساتھ) پڑھنے کو معمول بنایا تو رب تعالیٰ اس کی تکالیف کو ختم کردیں گے، کیوں کہ حق تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں فرماتے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’جان لو! کامیابی صبر کے ساتھ ہوتی ہے اور آسانی تکلیف کے ساتھ ہوتی ہے اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
حضرت بن زید بن اسلم اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں: جب حضرت ابو عبیدہؓ کو قید کیا گیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی طرف یہ خط لکھ بھیجا: ’’جب بھی کسی بندے پر کوئی سختی اور تکلیف آتی ہے تو حق تعالیٰ اس کے لئے اس کے بعد آسانی پیدا کردیتے ہیں اور یہ بات تو حتمی ہے کہ کبھی ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آسکتی۔‘‘
تنگی کے ساتھ آسانی اور مشکل کے ساتھ خلاصی ہونے کے بہت دلچسپ رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب مشکل ناقابل برداشت ہو جائے اور انسان مخلوق کی طرف سے اس کی خلاصی سے مایوس ہو جائے تو اس کا دل ایک رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور یہی خدا توکل کی حقیقت ہے اور جو کوئی رب تعالیٰ سے ضروریات طلب کرتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے، رب تعالیٰ اس کے لئے کافی ہو جاتے ہیں۔ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور جو کوئی خدا پر بھروسہ کرے، تو وہ اس (کا کام بنانے) کے لئے کافی ہے۔‘‘
حضرت ادریس بن خولانیؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابودردائؓ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا:
ترجمہ: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے۔‘‘
تو انہوں نے فرمایا: ’’نبی کریمؐ سے بھی اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: حق تعالیٰ کی شان میں سے یہ بھی ہے کہ (1) وہ گناہ کو معاف کرتے ہیں (2) غم تکلیف کو دور کرتے ہیں، (3) نجات عنایت فرماتے ہیں، (4) بہت ہی قوموں کو بلند کرتے ہیں اور بہت سی قوموں کو ذلیل اور پست کرتے ہیں۔‘‘ (ختم شد)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment