ضیاء الرحمٰن چترالی
یہ ایک ایسے جرمن ڈاکٹر کے قبول اسلام کی داستان ہے، جس کی زندگی کا مقصد ہی عیسائیت کی تبلیغ تھا۔ اسے ایک مشنری مشن کے تحت مسلمانوں کو مرتد کر کے عیسائی بنانے کیلئے افریقی ملک صومالیہ بھیجا گیا۔ مگر وہاں اسے حق تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا۔ چھتیس سالہ آئی سرجن ’’جی میشل‘‘ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کے سربراہ تھے، جنہیں بظاہر صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی آنکھوں کی بیماری کا علاج کرنا اور صومالی مسلمانوں کو اس بیماری سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کرنا تھا۔ مگر پس پردہ وہ ان سے دولت ایمان چھیننے کے مشن پر روانہ ہوئے تھے۔
آئیے ڈاکٹر جی میشل کے صومالیہ میں خفیہ مشن اور پھر ایمان کے نور سے منور ہونے کی داستان خود انہی کی زبانی پڑھتے ہیں، جو انہوں نے ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے بیان کی ہے:…
’’میرے لیے صومالیہ کا سفر اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات انتہائی دلچسپ رہی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے وجود میں پھیلی اس خوشی کی اصل وجوہات کیا تھیں۔ میری صومالیہ آمد پر وہاں کے معصوم لوگوں کی جانب سے دلفریب استقبال کی وجہ یہ تھی کہ شدید بھوک اور افلاس کے باوجود ان غیرت مند لوگوں میں عزت نفس بدستور موجود تھی۔ میری خوشی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ ان لوگوں کے چہروں سے معصومیت کے علاوہ امانت اور صداقت بھی صاف عیاں تھی۔
اپنی ٹیم کو لے کر صومالیہ پہنچنے کے فوری بعد ہم نے اپنے طبی مراکز کا آغاز کر دیا اور انتہائی محنت و لگن کے ساتھ وہاں پھیلی آنکھوں کی بیماری کے خلاف کام شروع کر دیا۔ درج بالا عوامل کی بنا پر یہ طبی مرکز میرے لیے زیادہ دلچسپ تھا، اسی لیے میں زیادہ تر طبی مرکز ہی میں رہتا تھا۔ ہم اپنے کام میں اتنے مشغول رہے کہ میں عیسائیت کے پرچار اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے مشن ہی کو بھول گیا۔ بہت کم عرصے میں ہی یہاں کے متعدد مسلمان میرے اچھے دوست بن گئے، وہ مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے اور میں بھی ان سے اپنی مشکلات کے حل کے حوالے سے کچھ نہ کچھ پوچھتا رہتا تھا۔
لوگوں کے علاج معالجے میں کسی قسم کی کسر نہ چھوڑنے کی بنا پر میں نے عام لوگوں میں انتہائی مقبولیت حاصل کر لی، اپنے پیشے میں مہارت کے سبب میں نے سینکڑوں لوگوں کو نابینا ہونے سے بچانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جہاں بھی جاتا اور جن لوگوں سے بھی ملتا، مجھے بہت پیار اور عزت دی جاتی، اگرچہ میں ان کی زبان سے ناآشنا تھا، تاہم ان لوگوں کے چہرے کے تاثرات میرے دامن کو عقیدت کے پھولوں سے بھر دیتے تھے۔ پانچ مہینے اسی طرح گزر گئے، لیکن ایک دن خلاف توقع ہمارے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے مجھے ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی پہنچنے کا حکم دیا گیا تھا۔
دل میں سوچا کہ شاید میرے کام اور محنت کے سبب میرا ادارہ میری تعریف اور ترقی کیلئے مجھے بلا رہا ہوگا اور اس سلسلے میں میری ٹیم کو انعام و اکرام سے نوازنے کیلئے مجھے بلایا جا رہا ہے، تاہم ٹیلی گراف کے متن کو بغور دیکھ کر میرے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کو ایک مہینے کیلئے برطانیہ بھیجا جا رہا ہے، جہاں پر مشن کی تکمیل کے حوالے سے مجھے خصوصی ٹریننگ دی جانی تھی، جسے صومالیہ کے مشن کیلئے نہایت ضروری بتایا گیا تھا۔ میں اس حکم سے انکار نہ کر سکا۔ اگرچہ میرا دل پوری طرح صومالیہ میں لگ چکا تھا۔ اس لیے پہلے جرمنی اور پھر برطانیہ چلا گیا۔ برطانیہ کے ایک مہینے کے خصوصی دورے کے بعد میں واپس جرمنی چلا آیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭