شیطان کی ایک چال اور اس کا حل!

ایک شخص امام ابو حنیفہؒ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے گھر میں رقم دفن کی تھی، مگر اب وہ جگہ یاد نہیں آتی، جہاں وہ رقم دفن کی تھی۔ اگر میں سارے گھر کو کھو دوں تو اس میں مشقت ہے، لہٰذا کوئی تدبیر بتایئے کہ وہ جگہ یاد آجائے۔
امام صاحبؒ نے اول تو انکار کیا کہ بھائی! یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے، جس کا میں جواب دوں، لیکن جب اس کا اصرار بڑھا تو فرمایا کہ آج رات نیت کر لو کہ جب تک وہ جگہ یاد نہ آئے، اس وقت تک نفلیں ہی پڑھتا رہوں گا، چاہے صبح کیوں نہ ہو جائے؟ امام صاحبؒ نے فرمایا وہ جگہ یاد آجائے گی۔
چنانچہ اس نے اسی نیت سے نماز شروع کی، دوسری ہی رکعت میں وہ جگہ یاد آگئی اور اس نے نماز مکمل کر کے رقم نکال لی۔
صبح کو امام صاحبؒ کو واقعہ سنایا تو امام صاحب نے فرمایا، یہ شیطان نے بھلایا تھا اور پھر اس کو کب گوارا تھا کہ تم رات بھر نماز ہی پڑھتے، اس لئے اس نے فوراً یاد دلا دیا، مگر تم کو چاہیے تھا کہ یاد آنے کے بعد بھی بطور شکریہ شیطان کو ذلیل کرنے کیلئے تمام رات نماز پڑھتے رہتے۔
عذابِ قبر کا سانپ بول اٹھا!
سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں ایک شخص فوت ہوا، جب لوگ اس کا جنازہ پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس کے کفن کے اندر کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ جب کفن کی گرہ کھولی تو دیکھا کہ ایک زہریلا سانپ ہے، جو اسے ڈس رہا ہے۔ لوگوں نے اسے مارنا چاہا۔ سانپ نے کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا ’’اے لوگو! تم مجھے کیوں مارتے ہو، حالانکہ میں اپنے آپ نہیں آیا، بلکہ حق تعالیٰ کے حکم سے آیا ہوں اور اسے قیامت تک ڈستا رہوں گا۔‘‘
لوگوں نے پو چھا: ’’اے سانپ! یہ بتا کہ اس کا جرم کیا تھا، جس کی وجہ سے اسے یہ عذاب دیا گیا؟‘‘
سانپ نے کہا: اس کے تین جرم تھے:
(1) یہ اذان سن کر مسجد نہیں آیا کرتا تھا۔ (2) مال کی زکوٰۃ نہیں ادا کیا کرتا تھا۔ (3) علمائے کرام کی بات نہیں سنتا تھا۔
(بحوالہ: نافر مانوں پر عذاب کے عبرتناک واقعات)
رب تعالیٰ مظلوم کی بددعا فوراً سنتا ہے!
منقول ہے کہ جب خالد بن برمک اور اس کے بیٹے کو قید کیا گیا تو بیٹے نے عرض کی: ’’اے میرے ابا جان، ہم عزت کے بعد قید و بند کی صعوبتوں کا شکار ہو گئے۔‘‘ تو اس نے جواب دیا:
’’اے میرے بیٹے! مظلوم کی بددعا رات کو جاری رہی، لیکن ہم اس سے غافل رہے، جبکہ خدا اس سے بے خبر نہ تھا۔‘‘ (کتاب الکبائر للذہبی ص 120)
حضرت سیدنا یزید بن حکیمؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس سے زیادہ کسی سے نہیں ڈرا، جس پر میں نے ظلم کیا اور میں جانتا ہوں کہ اس کا خدا عزوجل کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ وہ مجھ سے کہتا ہے:
’’مجھے خدا ہی کافی ہے، خدا ہی میرے اور تیرے درمیان (انصاف کرنے والا) ہے۔‘‘ (کتاب الکبائر للذہبی ص 120)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment