معارف و مسائل
موجودہ زمانے میں جو زمین کی کشش سے باہر نکلنے اور خلا میں سیارات پر پہنچنے کے تجربات ہو رہے ہیں، وہ سب ظاہر ہے کہ آسمان کے حدود سے باہر نہیں، بلکہ سطح آسمان سے بہت نیچے ہو رہے ہیں، اقطار السمٰوات سے باہر نکل جانے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو اقطار السمٰوات کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے باہر نکلنا تو کجا، اس لئے اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہنچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں، بعض سادہ لوح لوگ اس آیت ہی کو خلائی سفروں کے امکان و جواز کے لئے پیش کرنے لگے، جو معانی قرآن سے بالکل ناواقفیت کی دلیل ہے۔
یُرسَلُ عَلَیْکُمَا… حضرت ابن عباسؓ اور دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ شواظ بضم شین آگ کے اس شعلے کو کہا جاتا ہے ،جس میں دھواں نہ ہو اور نحاس اس دھویں کو کہا جاتا ہے، جس میں آگ کی روشنی نہ ہو، اس آیت میں بھی جن و انس کو خطاب کر کے ان پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑنے کا بیان ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حساب کتاب کے بعد جو مجرمین کو جہنم میں ڈالا جائے گا، اس میں یہ دو طرح کے عذاب ہوں گے، کہیں آگ ہی آگ اور شعلہ ہی شعلہ دھویں کا نام نہیں اور کہیں دھواں ہی دھواں جس میں آگ کی کوئی روشنی نہیں اور بعض مفسرین نے اس آیت کو پچھلی آیت کا تکملہ قرار دے کر یہ معنی کئے ہیں کہ اے جن و انس آسمانوں کے حدود سے نکل جانا تمہارے بس کی بات نہیں، اگر تم ایسا ارادہ کر بھی لو تو جس طرف بھاگ کر جاؤ گے، آگ کے شعلے اور دھویں تمہیں گھیر لیں گے۔ (ابن کثیر)
فَلَا تَنْتَصِرٰنِ… انتصار سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی کی مدد کر کے مصیبت سے نکالنے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے تم سب جن و انس میں سے کوئی کسی کی مدد نہ کر سکے گا کہ اس کے ذریعے عذاب سے چھوٹ جائے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭