سید ارتضی علی کرمانی
حضرت صاحبؒ کی عام گفتگو ازحد نرم دلپذیر ہوتی تھی۔ بلند اس قدر کہ مجلس کے ہر گوشے میں باآسانی دے اور خوشگوار اتنی گویا چاندی کی گھنٹی بج رہی ہو۔ سنت نبویؐ کی تعمیل میں اس طرح ٹھہر ٹھہر کر گویا ہوتے کہ ایک ایک لفظ جدا جدا سمجھا جاسکتا تھا۔ گفتگو کے دوران کسی وقت قدرے مسکراہٹ اور کسی وقت آہ سرد کا سوزو ساز تقریر کی لذت کو دوبالا کردیتا تھا۔ دلالت کلام استفہام، استعجاب اور دیگر نکات کی ادائیگی میں کسی وقت دست مبارک بڑے لطیف اور دلکش پیرائے میں ضعیف سی حرکت میں آجاتا اور یہ اشارات بے حد پیارے اور بھلے معلوم ہوتے۔ اس چیز کو بالعموم حضرت صاحبؒ کے کمالات لُدنیہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ آپ کی مجلس سے ہر سائل مطمئن اور ہر مناظر ساکت اور صامت ہو کر لوٹتا تھا۔
قبل اس کے کہ حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے مشہور مناظرات کی کیفیات تفصیل سے بیان کی جائے، مناسب ہے کہ بعض سوالات کے مختصر، دل نشین اور مسکت جوابات جو ہمارے علم میں آئے ہیں، یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ ان مسائل کے متعلق حضرت صاحبؒ کی مکمل تحقیقات آپ کی تصانیف اور فتاویٰ میں ملاحظہ کرنی چاہئے۔
سوال: نص میں سید کی تعظیم؟ ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آیا سید کی تعظیم کے لئے کوئی ثبوت ہے؟ تو حضرت صاحبؒ نے فرمایا کہ نسب کا شرف کلام الٰہی شریف سے ثابت ہے۔
ترجمہ: (اے رسول) عیسائیوں سے فرما دیجئے کہ اگر خدا کا کوئی فرزند ہوتا تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرتا۔‘‘ (زخرف۔ آیت 81)
سوال: حیات النبیؐ؟ ایک مرتبہ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ پیغمبر علیہ السلام کو زندہ کیونکر مان لیا جائے، جبکہ قرآن پاک میں آیا ہے:
ترجمہ: ’’آپ پر بھی موت آنے والی ہے اور ان لوگوں پر بھی۔‘‘
حضرت صاحبؒ نے اسی شخص پر سوال کیا کہ ’’یہ قضیہ مطلقہ عامہ ہے یا دائمہ مطلقہ؟‘‘ مگر ان صاحب سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ حضرت صاحبؒ کا مطلب یہ تھا کہ یہ جملہ مطلقہ عامہ ہے۔ جس کے صدق کے لئے تین زمانوں میں کسی ایک زمانے کے اندر موت کا تحقق کافی ہے۔ دوام موت ضروری نہیں۔ کیونکہ مناطقہ کے نزدیک دائمہ مطلقہ وہ قضیہ ہے۔ جس کا حکم دائمی ہو اور مطلقہ عامہ وہ جس کا ثبوت حکم کسی زمانے میں ہو جائے یعنی موت کا شرط تھوڑے عرصہ کے لئے پوری ہو جائے۔
سوال: بحق و بحرمت اولیائے کرام؟
ایک مرتبہ حضرت صاحبؒ سے یہ سوال کیا گیا کہ صوفیائے عظام اپنے وظائف میں الٰہی بحق فلاں اور الٰہی بحرمت فلاں کے کلمات سے کیوں دعا مانگتے ہیں جبکہ حق تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے؟
آپؒ نے فرمایا کہ بے شک رب تعالیٰ پر ازخود کسی کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اگر وہ خود ازراہ فضل (ترجمہ: مومنوں کی نصرت ہم پر حق ہے۔ سورئہ روم۔ 47) ارشاد فرما کر کسی کو حق عطا فرمائے تو کیا اعتراض باقی رہتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭