خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا تھا، جس کی عمر تقریباً سولہ سال تھی، وہ بہت کثرت سے زاہدوں اور بزرگوں کی مجلس میں رہا کرتا تھا اور اکثر قبرستان چلا جاتا، وہاں جاکر کہتا کہ تم لوگ ہم سے پہلے دنیا میں موجود تھے، دنیا کے مالک تھے، لیکن اس دنیا نے تمہیں اجازت نہ دی، حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔ کاش مجھے کسی طرح خبر ہوتی کہ تم پر کیا گزر رہی ہے اور تم سے کیا کیا سوال و جواب ہوئے ہیں اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتا:
ترجمہ: ’’مجھے جنازے ہر دن ڈراتے ہیں اور مرنے والوں پر رونے والیوں کی آوازیں مجھے غمگین رکھتی ہیں۔‘‘
ایک دن وہ اپنے باپ (بادشاہ) کی مجلس میں آیا، اس کے پاس وزرا وامرا سب جمع تھے اور لڑکے کے بدن پر ایک کپڑا معمولی اور سر پر ایک لنگی بندھی ہوئی تھی۔ اراکین سلطنت آپس میں کہنے لگے کہ اس پاگل لڑکے کی حرکتوں نے امیر المؤمنین کو دوسرے بادشاہوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا ہے، اگر امیر المؤمنین اس کو تنبیہ کر دے تو شاید یہ اپنی اس حالت سے باز آجائے۔
امیر المؤمنین نے یہ بات سن کر اس سے کہا کہ بیٹا تو نے مجھے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر باپ کو تو کوئی جواب نہیں دیا، لیکن ایک پرندہ وہاں بیٹھا تھا، اس کو کہا کہ اس ذات کے واسطے کہ جس نے تجھے پیدا کیا تو میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جا۔ وہ پرندہ وہاں سے اڑ کر اس کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا، پھر کہا کہ اب اپنی جگہ چلا جا۔ وہ ہاتھ پر سے اڑ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔
اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ ابا جان اصل میں آپ دنیا سے جو محبت کر رہے ہیں۔ اس نے مجھے رسوا کر رکھا ہے۔ اب میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ سے جدائی اختیار کر لوں۔ یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور ایک قرآن شریف صرف اپنے ساتھ لیا۔ چلتے ہوئے ماں نے ایک بہت قیمتی انگوٹھی بھی اس کو دے دی (کہ احتیاج کے وقت اس کو فروخت کر کے کام میں لائے)
وہ یہاں سے چل کر بصرہ پہنچ گیا اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا۔ ہفتہ میں صرف ایک دن ہفتے کو مزدوری کرتا اور آٹھ دن تک اس مزدوری کے پیسے خرچ کرتا اور آٹھویں دن پھر ہفتہ کو مزدوری کر لیتا اور ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) مزدوری لیتا۔ اس سے کم یا زیادہ نہ لیتا۔ ایک دانق روزانہ خرچ کرتا۔
ابو عامر بصریؒ کہتے ہیں کہ میری ایک دیوار گر گئی تھی۔ اس کو بنوانے کے لیے میں کسی معمار کی تلاش میں نکلا (کسی نے بتایا ہو گا کہ یہ شخص بھی تعمیر کا کام کرتا ہے) میں نے دیکھا کہ نہایت خوب صورت لڑکا بیٹھا ہے۔ ایک زنبیل پاس رکھی ہے اور قرآن شریف دیکھ کر پڑھ رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ لڑکے مزدوری کرو گے؟
کہنے لگا کیوں نہیں کریں گے، مزدوری کے لیے تو پیدا ہی ہوئے ہیں۔ آپ بتائیں کیا خدمت مجھ سے لینی ہے؟
میں نے کہا گارے مٹی (تعمیر) کا کام لینا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک درہم اور ایک دانق مزدوری ہو گی اور نماز کے اوقات میں کام نہیں کروں گا، مجھے نماز کے لیے جانا ہو گا۔ میں نے اس کی دونوں شرطیں منظور کر لیں اور اس کو لاکر کام پر لگا دیا۔ مغرب کے وقت جب میں نے دیکھا تو اس نے دس آدمیوں کے بقدر کام کیا۔ میں نے اس کو مزدوری میں دو درہم دیئے۔ اس نے شرط سے زائد لینے سے انکار کر دیا اور ایک درہم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔ مجھے اس کی دیانت و امانت اور خود داری پر تعجب ہونے لگا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭