وزیر خانم نے شہزادہ فخرو سے نکاح کا فیصلہ کرلیا

وزیر خانم کو بالآخر یقین آگیا کہ نواب مرزا کی محبت میں کمی ہے اور نہ ہی اسے یہ بات کچھ بھی ناگوار گزری ہے کہ اس کی ماں کے لئے قلعے سے رشتہ آئے اور ماں اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر ایک نئی زندگی گزارنا اختیار کرے۔ اگر نواب مرزا اس بات پر بخوشی راضی ہے کہ میں ولی وعہد سوئم سے نکاح کرلوں تو یہ رضامندی اس کی سرد مہری یا بے مروتی کی دلیل نہیں، بلکہ سراسر بنائے محبت ہے۔ لیکن وزیر نے اپنے دل سے کہا، نواب مرزا کی خوشنودی اپنی جگہ، پھر بھی مجھے تو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہے۔ یہ کوئی دل لگی کے معاملے تو ہیں نہیں کہ اگلا آؤ دیکھے نہ تاؤ بس بے خطر کود پڑے… جیسے میں کود پڑی تھی…۔ مجھے اس پختہ سن و سال میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہی انسب ہے۔
کچھ دیر تک سوچتے رہنے کے بعد وزیر بولی: ’’ایک بات اور بھی ہے۔ اس کا بھی تذکرہ آپ سے کرنا اب ضروی ہوگیا ہے‘‘۔
’’جی فرمائیے‘‘۔ نواب مرزا نے ماں کی طرف کچھ اور پاس آکر ذرا جھکتے ہوئے کہا۔ ’’ہمہ تن گوش ہوں‘‘۔
’’وہ… بات یہ ہے… بات دراصل یہ ہے کہ اب آپ کی بھی عمر شادی کے لائق ہے۔ قلعے والی بات ہو یا نہ ہو، پر اس گھر میں بہو کے قدموں سے روشنی ہوجائے، یہ میری بڑی تمنا ہے‘‘۔
نواب مرزا بڑے زور سے چونکا۔ ’’شادی، میری شادی؟ لیکن اماں جان ابھی تو میں اپنی کفالت کے لئے آپ کے محتاج ہوں‘‘۔
’’سوچتی تو میں بھی یہی تھی کہ پرائی لڑکی گھر میں لاؤں…‘‘۔
’’پرائی لڑکی‘‘ کا فقرہ سن کر نواب مرزا کو بے چینی سی ہوئی کہ یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔ اس نے جلدی سے کہا۔ ’’لیکن اماں جان…‘‘۔
وزیر نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور بولی۔ ’’صاحب زادے پہلے بات تو سن لیں کہ میںکہہ کیا رہی ہوں۔ پرائی لڑکی کو گھر میں لاؤں تو کس بوتے پر لاؤں۔ نواب مرزا کسی قابل ہولیں تو بات چلائی جائے۔ لیکن بڑی باجی نے کچھ اور ہی بات کہی‘‘۔
وزیر مسکرائی۔ وہ اپنے بیٹے کی بیتابی کا راز خوب سمجھتی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’انہیں انتظار تھا کہ میں تمہارے لئے فاطمہ کو ان سے مانگ لوں۔ پر میں کچھ کہتی نہ تھی تو ان کا بھی منہ نہ کھلتا تھا۔ اب یہ جو قلعے والی باتیں اٹھیں تو یہ ذکر بھی درمیان میں آیا۔ انہوں نے اشارے اشارے میں کہا کہ وہ تو تجھے خانہ داماد کی طرح بھی منظور کرلیں گی‘‘۔
نواب مرزا کے چہرے کا رنگ کچھ متغیر ہوا۔ اسے فاطمہ دل و جان سے پسند تھی۔ لیکن خانہ داماد بننے کا خیال اس کے دل سے بہت دور تھا۔ ’’اماںجانی یہی گھر جیسا بھی ہے میرا ہے اور فاطمہ کا بھی…‘‘۔ اس نے کہنا شروع کیا۔
’’اے ہے بیٹا، وہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ سب باتوں کی بات یہ ہے کہ بڑی باجی خوش ہوں گی، دل سے خوش ہوں گی اگر فاطمہ تم سے منسوب کر دی جائے۔ اور ظاہر ہے کہ میری بھی چاہت یہی ہے۔ سو میں نے ان سے کہہ دیا، جیسے فاطمہ بیٹی ویسے نواب مرزا تمہارا بیٹا۔ ہمیں دل سے رشتہ منظور ہے‘‘۔
’’خدا کی قسم اماں جان آپ نے میرے جسد مردہ میں جان ڈال دی‘‘۔ نواب مرزا نے بڑھ کر اپنے بازو ماں کی گردن میں حمائل کردئیے۔ ’’آپ کے ہزاروں احسان مجھ پر ہیں، لیکن یہ احسان تو سب سے بڑھ کر ہے۔ میرا رواں رواں آپ کا غلام پہلے ہی تھا اب میں اور کیا آپ کی نذر کروں۔ جب تک جیوں گا آپ کو دعا دوں گا۔ اللہ آپ کا سایہ میرے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے‘‘۔
نواب مرزا بار بار ماں کو گلے لگاتا، اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا، اور کبھی ہنستا تو کبھی بھرائے ہوئے گلے سے ماں کی درازی عمر اور سلامتی کے لئے دعائیہ کلمات کہتا۔ وزیر کی آنکھ سے آنسو جاری تھے۔ وہ چٹا چٹ بیٹے کی بلائیں لیتی اور کہتی۔ ’’بچے میاں، میری درازی عمر کی دعا نہ کریں۔ میں تو دعا کرتی ہوں کہ میری عمر آپ کو لگ جائے۔ آپ کی آئی مجھے آجائے اور میں آپ دونوں کو ہنستا کھیلتا پھولتا دیکھتی اس جہان سے رخصت ہوں‘‘۔
جب دونوں کے دل کچھ ٹھہرے تو نواب مرزا نے کہا۔ ’’اماں جان آپ یہ ہرگز خیال نہ کیجئے گا کہ میں جو آپ کو قلعے کا پیغام قبول کرنے کا کہتا ہوں تو اس وجہ سے کہ آپ کی اور بڑی خالہ کی بات فاطمہ کے باب میں ہوئی ہے یا ہونی ہے‘‘۔
’’نہیں، اب مجھے کوئی شک نہیں۔ پہلے بھی نہیں تھا، لیکن ایمان اور انصاف کا تقاضا یہی تھا کہ بڑی باجی کی بات آپ سے پوشیدہ رکھوں، تاکہ آپ کو جو صلاح ہو وہ کسی اور خیال کے تحت نہ ہو‘‘۔
’’جی ہاں۔ میں اس بات کو اور بھی واضح کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ وہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ آپ قلعہ مبارک میں داخل ہوں یا نہ ہوں، وہ الگ معاملہ ہے۔ اور دوسرا معاملہ آپ بہنوں کے درمیان ہے۔ میں اسے ایک دوسرے پر مشروط نہیں قرار دیتا۔ اصل مرضی آپ کی ہے‘‘۔
’’نواب مرزا مجھے آپ کی سعادت مندی سے یہی امید تھی۔ میں یہ سب باتیں بڑی باجی کے گوش گزار کردوں گی۔ لیکن آپ بھی یہ سمجھ رکھیں کہ میں قلعے والوں کے یہاں شرطیں ضرور لگاؤں گی، وہ منظور ہوں یا نہ ہوں‘‘۔
’’لیکن اماں جان اپنی شرائط کی منظوری کو منظوری خطبہ کی شرط حاشا نہ ٹھہرائیے گا‘‘۔ نواب مرزا نے گھبراکر کہا۔ اس نے ’’خطبہ‘‘ کو بکسر اول بمعنی ’’نکاح کا پیغام‘‘ ادا کیا تھا۔
’’بھئی واہ نواب مرزا، آپ تو بالکل مولویوں والے کلام بول رہے ہیں۔ سچ ہے شاعروں کو ہر طرح کے قول اور فقرے آتے ہیں‘‘۔
’’اماں جان ہمیں باتوں میں نہ اڑائیے‘‘۔
’’صاحب زادے پہلے ہمیں شرطیں تو قائم کرنے دیجے، پھر دیکھی جائے گی‘‘۔
’’بائی جی نے بھی تو کہا تھا کہ آپ کے بچوں کا سب حال ٹھیک ہوگا‘‘۔
’’انہوں نے تو یہ بھی کہا تھا کہ قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے‘‘۔
’’اماں جان۔ یہ تو عام سی بات تھی۔ اس کا کچھ اور مفہوم کیوں نکالیں؟‘‘۔
’’اچھا، دیکھی جائے گی‘‘۔ وزیر نے ٹھنڈی سانس بھر کہا۔ ’’میں کل صبح بڑی کے پاس جاؤں گی اور سب حال انہیں بتادوں گی۔ آگے اللہ مالک ہے‘‘۔
’’حبیبہ کو بھی سن گن دے دیجئے گا۔ کچھ نہ کچھ تیاریاں تو کرنی ہی ہوں گی۔ اور منجھلی خالہ صاحب کو تو ابھی سے کہلا دیجے۔ انہیں سفر کا انتظام کرنا ہوگا۔ نواب صاحب سے اجازت لینی ہوگی‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment