کرمان کول ایکسپلوریشن ڈوویلپمنٹ پروجیکٹ دفن کردیا گیا

آخرکار میں نے انہی کے تخمینے کی بنیاد پر تافتان میں نمک کے ذخائر کی دریافت کے لیے ایک خاصی مفصل تجویز ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو روانہ کر دی اور انہوں نے اس تجویز کو حکومت بلوچستان کو ضروری کارروائی کے لیے روانہ کر دیا۔ مگر وہاں سے جواب آیا کہ ہم اپنے موجودہ بجٹ سے ڈرلنگ کا نصف خرچہ بھی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ بات مجھے ڈاکٹر صاحب کے سیکریٹری محمد فہیم صاحب نے ٹیلی فون پر بتائی۔ اس پر میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتاریخ 13 مئی 2002ء ایک دوسرا پروپوزل پیش کیا، جس میں تافتان میں تین عدد ڈرل ہولز کی ڈرلنگ کا کام بلوچستان کی کسی پرائیویٹ ڈرلنگ کمپنی سے کرنے کی تجویز پیش کی تھی کہ اس صورت میں ڈرلنگ کا خرچہ 4500 روپے فی میٹر سے کم ہوکر صرف 1000 روپے فی میٹر رہ جانے کی امید تھی اور تافتان نمک کی ڈرلنگ کا خرچہ 2.7 ملین روپے سے کم ہو کر 0.8 ملین روپے رہ جائے گا۔ میں نے یہ بھی تحریر کیا کہ آٹھ لاکھ روپے کا خرچ تو گورنر بلوچستان اپنی کسی بھی سرکاری مد سے نکال کر نمک کی ڈرلنگ کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے میرے اس نظر ثانی شدہ پروپوزل کو گورنر بلوچستان جناب جسٹس ریٹائرڈ امیرالملک مینگل صاحب کو بھیجنا مناسب نہ سمجھا۔ اغلباً انہوں نے سوچا کہ اگر ڈرلنگ کا خرچ اتنا کم کیے جانے کا آپشن موجود تھا تو اس کو میں نے اپنے بنیادی پروپوزل میں کیوں شامل نہیں کیا۔ مگر شومئی قسمت کہ میں نے یہ سوچا کہ حکومت پاکستان کے زیادہ تر ادارے کسی سرکاری ادارے سے کام کروانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، تاکہ وہ آئندہ ہر کس و ناکس کے دوست پروری، اقربا پروری اور غبن کے الزامات سے محفوظ رہیں، خواہ اس موہوم خطرے سے اپنی کھال بچانے کے چکر میں حکومت پاکستان کے ایک کے بجائے دس روپے ہی کیوں نہ خرچ ہو جائیں۔ مگر حالات نے بتایا کہ مجھ سے غلط نمبر ڈائل ہو گیا تھا۔
16 اپریل 2002ء جب میں اپنے دفتر میں بیٹھا ان سوچوں میں گم تھا کہ اپنے بلوچستان کے نمک کے پروجیکٹ کو اور کرمان وطبس (ایران) کے کوئلے کے پروجیکٹ کو کس طرح آگے بڑھایا جائے کہ یہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں کہ یکایک ڈاکٹر قدیر خاں صاحب کے سیکریٹری جناب محمد فہیم صاحب کا فون آیا۔ وہ مجھے یہ خوش خبری دے رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے آپ کا کرمان کے کوئلے کا ایکسپلوریشن و ڈیویلپمنٹ پروپوزل نہ صرف ایپروو (approve) کر دیا ہے، بلکہ اسے وزیر صنعت و پیداوار حکومت پاکستان کو اس مشورے کے ساتھ روانہ کر دیا ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کو پرائیویٹ سیکٹر میں پروموٹ کرنے کی کوشش کریں۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر صاحب نے اس پروپوزل کو وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل کو بھی روانہ کیا ہو یا پھر وزیر صنعت و پیداوار نے ازخود وزیر پیٹرولیم کو اس خیال سے روانہ کر دیا ہو کہ اس پروجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے صحیح وزارت، وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل ہی ہے۔ یہ میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ کچھ دن بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب کے سیکریٹری جناب محمد فہیم صاحب کی جانب سے مجھے ایک موٹا سا لفافہ موصول ہوا، جس میں میرے کرمان کوئلے کے ڈیویلپمنٹ پروپوزل پر جیولوجیکل سروے آف پاکستان کوئٹہ کے سخت منفی ردعمل اور پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (PMDC) کے نسبتاً کم منفی ردعمل (comments) کی فوٹو کاپیاں ملفوف تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے رائے زن نے میرا نوٹ ان صاحب تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنا ردعمل تیار کیا ہوا تھا، کیونکہ ان کے کئی اعتراضات اور گل افشانیوں کے جوابات میرے پروپوزل میں موجود تھے۔ بڑے تعجب کی بات یہ تھی کہ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کو، جو اپنے افسران بالخصوص ڈائریکٹر جنرل کو دنیا جہاں کے غیر ملکی دورے کرواتا رہتا ہے، کبھی کسی میٹنگ کے سلسلے میں کسی سیمینار میں شمولیت کے لیے۔ یہ معلوم نہ تھا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک ایران میں کوئلے کے ذخائر ہیں یا نہیں اور اگر ہیں تو ان کا گریڈ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میرے نوٹ میں اکثر تفاصیل موجود ہونے کے باوجود یہ ادارہ اپنے آفیشل نوٹ میں ایران کے کوئلوں کا پاکستانی کوئلوں بالخصوص تھر کے کوئلے سے موازنہ نہ کرتا اور یہ نہ کہتا کہ کیا ہوا اگر ایرانی کوئلے کی سیموں کی موٹائی 0.45 میٹر سے 7.00 میٹر تک ہے۔ ہمارے تھر میں تو کوئلے کی سیموں کی اوسط دبازت 12 میٹر ہے۔
قارئین کرام! اگر آپ کسی تجربہ کار آئرن میٹالرجسٹ سے، کہ جس کا یہ دائرۂ کار ہے، اس معاملے میں سوال کریں گے تو وہ یہی کہے گا کہ جہاں تک اسٹیل انڈسٹری میں استعمال کا تعلق ہے تو وہاں تو ایرانی کوکنگ کوئلے کی واحد میٹر دبیز کوئلے کی سیم کے مقابلے میں پاکستانی کوئلوں بالخصوص تھر کے کوئلے کی سو میٹر دبیز کوئلے کی سیم بھی محض ناقابل استعمال کچرہ ہے اور بس۔ دوسرے، تھر کے کوئلے یا کسی بھی پاکستانی کوئلے کی دبازت کا کوئی کیا کرے، جبکہ وہ اسٹیل انڈسٹری میں استعمال ہو ہی نہیں سکتا۔ جیولوجیکل سروے آف پاکستان کا ادارہ منفی رائے زنی کرتے وقت یہ بھی بھول گیا کہ ایران کے کوئلے کے ذخائر کوئی نئے دریافت شدہ ذخائر نہیں ہیں۔ بلکہ ایران میں کوئلے کی کان کنی اور استعمال پاکستان سے کہیں زیادہ قدیم، وسیع تر اور منظم تر ہے۔ اور یہ کہ ایرانی کوکنگ کوئلہ عرصہ دراز سے اور بڑی کامیابی سے ایران کی اسٹیل انڈسٹری میں استعمال ہو رہا ہے۔ نیز ایران کی اسٹیل انڈسٹری پاکستان اسٹیل انڈسٹری سے کئی گنا بڑی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ایران اس زمانے (2002ئ) میں کچھ کوکنگ کوئلہ درآمد کرتا تھا۔ مگر یہ اس وجہ سے تھا کہ ایران کی اسٹیل انڈسٹری بہت زیادہ تیز رفتاری سے بڑھی اور مائننگ انڈسٹری اور وہ بھی وقت اور سرمایہ طلب زیر زمیں کوئلے کی مائننگ انڈسٹری، جو ہر جگہ سست رفتاری سے ہی بڑھتی ہے، اس کا ساتھ نہ دے سکی۔ مگر اب صورت حال مختلف ہے اور ایران نہ صرف اپنی کوکنگ کوئلے کی ضروریات خود پوری کر رہا ہے، بلکہ کم از کم تھرمل کوئلہ خاصی بڑی مقدار میں برآمد بھی کر رہا ہے۔
بہرحال شدآنچہ شد اپنی مثبت یا منفی کوششوں میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان معدنی ترقیاتی کارپوریشن (دونوں سو فیصد سرکاری ادارے) کامیاب رہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور ان کا یہ حقیر مددگار ناکام رہے اور کرمان کول ایکسپلوریشن و ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ دفن کر دیا گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment