سرفروش

عباس ثاقب
ہم مہمان خانے کی آرام بخش فضا سے باہر نکلے تو سویرے کی برفیلی ہوا اور کہرے نے استقبال کیا۔ ہم دونوں تیزی سے جیپ میں جا بیٹھے۔ جیپ کا پچھلا حصہ ڈھکا ہوا تھا۔ تاہم حسبِ روایت ڈرائیونگ اور پسنجر سیٹ کے دونوں طرف دروازے اور کھڑکیاں غائب تھیں۔ امر دیپ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے بعد اسٹیئرنگ پر ہاتھ رکھا اور پھر فوراً ہٹالیا۔ ’’یار بالکل برف ہو رہا ہے! دستانے ساتھ رکھنے چاہئے تھے۔ چلو بھوانی گڑھ سے خریدنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
جیپ کا انجن بہت اچھی حالت میں تھا۔ کیونکہ وہ فوراً ہی اسٹارٹ ہوگیا تھا۔ دھند کی وجہ سے حد نظر خاصی کم تھی، لہٰذا امر دیپ خاصے محتاط انداز میں گاڑی چلا رہا تھا۔ نیم پختہ سڑک پر ویسے بھی چھوٹے بڑے گڑھوں کی کمی نہیں تھی۔ امر دیپ نے کہا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں مزید ایک بھیگے پر سنترے اور ایک بھیگے پر آم کے باغات لگادوں۔ پرانے بیوپاریوں کی طرف سے آرڈر بڑھتے جارہے ہیں اور کچھ نئے بیوپاریوں کی طرف سے بھی دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے‘‘۔
میں نے اس کی رائے کی تائید کی۔ اتنے اچھے ذائقے والے پھلوں کی مانگ میں تو اضافہ ہونا ہی تھا۔ میں نے آپس کی گفتگو میں یکسانیت محسوس کی تو امر دیپ سے خود اس کی پسند کا کوئی گیت سنانے کی فرمائش کی۔ میری بات سن کر وہ یک دم خاموش ہوگیا۔ اس کے چہرے پر رفتہ رفتہ رنج و الم کے سائے اتر رہے تھے۔ مجھے پچھتاوا ہوا کہ یہ موضوع کیوں چھیڑ دیا۔
لیکن کچھ دیر کے توقف کے بعد امر دیپ نے حلق صاف کیا اور پھر دھیمے سروں میں طلعت محمود کا ایک درد بھرا گیت چھیڑ دیا۔ مجھے لگا کہ جیپ کی سرد فضا میںگرم آنسوؤں سے تپش بھرنے لگی ہے۔
’’شہرکی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارا پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں؟‘‘
اتفاق کی بات ہے اسرارالحق مجاز کی وہ نظم ’’آوارہ‘‘ مجھے بھی بے حد پسند تھی۔ میں سانس روکے امر دیپ کو گاتا سن رہا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ طلعت محمود اپنی آواز کے سوز کی وجہ سے برصغیر کے عظیم گائیکوں میں شمار ہوتا تھا۔ لیکن امر دیپ کی زندگی میں رونما ہونے والے بھیانک المیے کے پس منظر اور برفیلے ماحول میں ویران سڑک پر سفر کے دوران اس لمحے مجھے امر دیپ کے لبوں سے نکلنے والا ہر بول تیر بن کر دل میں اترتا محسوس ہوا۔ خصوصاً جب وہ ’’زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘ پر پہنچا تو مجھے اپنے حلق میں بھی نمکیلی نمی محسوس ہوئی۔
گیت ختم ہونے کے خاصی دیر بعد بھی ہم دونوں چپ چاپ، ایک دوسرے سے نظریں چرائے، آنسو چھپائے بیٹھے رہے۔ پھر امر دیپ نے ہی خود کو سنبھالا اور ادھر ادھر کی چند باتیں کرنے کے بعد کہا۔ ’’اب یار تمہیں ایک اور قسم کا آوارہ گانا سناتا ہوں۔ طبیعت سیٹ ہوجائے گی‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے مکیش کا گیت ’’آوارہ ہوں‘‘ خوب جھوم جھوم کر سنایا۔ اس گیت نے واقعی طبیعت کا بوجھل پن دور کر دیا اور جب بھوانی گوٹھ پہنچے تو دونوں پوری طرح ہشاش بشاش تھے۔ وہاں کا ناشتہ بھی امر دیپ کے دعوے کے مطابق نہایت لذیذ ثابت ہوا اور وہاں کی سوغات پیڑے بھی مزے کے تھے۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد امر دیپ نے اپنے پتا جی کے لیے پیڑوں کا ایک دونا بندھوا لیا۔ ہم دونوں جیپ میں آکر بیٹھے تو امر دیپ نے پیڑوں کا وہ دونا مجھے تھماتے ہوئے کہا۔ ’’یار ذرا پیچھے دونوں سیٹوں کے درمیان رکھے کمبلوں کے بنڈل پر رکھ دو‘‘۔
میں دونا لے کر سامنے والی دونوں سیٹوں کے درمیان سے پچھلے حصے کی طرف جھکا۔ کمبلوں کا بے ترتیب ڈھیر میری نظروں کے عین نیچے موجود تھا۔ میں نے ایک ہاتھ سے کمبل ہموار کرنا چاہے۔ میں نے جیسے ہی ایک کمبل کو اپنی طرف کھینچا، نیم تاریکی میں اس کے نیچے سے ایک گورے چٹے ہاتھ کی جھلک نے مجھے چونکا دیا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment