ہیری جواہرات اب خلا سے بھی لائے جائیں گے

ضیاچترالی
ہیرے جواہرات کے حصول کیلئے خلائی سفر کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے جاپانی ماہرین زمین کے گرد گردش کرنے والے شہابیوں سے مختلف قیمتی معدنیات اتار لانے کے لئے مشن تشکیل دے چکے ہیں۔ جبکہ امریکی کمپنیاں بھی ان دھاتوں کے حصول کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق خلا میں گھومنے والے مختلف سیاروں، سیارچوں اور شہابیوں میں اربوں ڈالرز مالیت کی مختلف قیمتی دھاتوں کے خزانے موجود ہیں۔ ان شہابیوں سے زمین پر گرنے والے ٹکڑوں کو مختلف ممالک میں منہ مانگی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خلا میں موجود اس بیش قیمت خزانے کے حصول کیلئے مختلف کمپنیوں کی جانب سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔ امریکہ سمیت کئی ممالک اور پرائیویٹ کمپنیاں خلا میں جانے اور سیاروں اور شہابیوں سے قیمتی معدنیات نکال کر زمین پر لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت جلد خلا سے معدنیات نکالنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور اگلے تین سال میں اس انڈسٹری کا حجم 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق خلا میں گھومتے شہابیوں اور سیاروں میں اس قدر قیمتی دھاتیں موجود ہیں کہ انہیں ’’اڑتی ہوئی سونے کی کانیں‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ٹائپ سی (Type-C) کے شہابیوں سے دھاتیں نکال کر زمین پر لانی شروع کی جائیں گی اور اس کے بعد بتدریج دیگر شہابیوں اور سیاروں کا رخ کیا جائے گا۔ اس کے لیے پہلا مشن جاپان کی اسپیس ایجنسی جے اے ایکس اے 2022ء میں شروع کرے گی، جس کی منصوبہ بندی وہ کر چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ڈزنی خلائی جہاز کو خلا میں بھیجے گی۔ تاہم امریکہ اس منصوبے پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ اس نے 2015ء میں اس حوالے سے قانون سازی بھی کر دی ہے، جس میں پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی اس مشن میں شامل ہونے کی اجازت دی جا چکی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ جاپان سے پہلے ہی خلا سے دھاتیں نکالنے کے مشن کا آغاز کر دے گا۔ ماہرین کے بقول زمین میں موجود ہیرے جیسے قیمتی جواہرات بھی خلا سے کسی حادثے کے نتیجے میں زمین پر پہنچے ہیں۔ چنانچہ روس میں 1970 میں ننانوے کلومیٹر قطر پر محیط ایک گڑھا نما جزیرے کا سراغ لگایا گیا تھا، جو ایک محیر العقول فلکی حادثے یعنی سیارچوں کے باہمی ٹکڑائو کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ اس تصادم کے بعد یہ قیمتی پتھر خلا سے زمین میں پہنچے تھے۔ اس میں موجود پتھروں اور جواہر کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانے والے ماہرین کے مطابق یہ جوہری خزانہ 3 ہزار سال تک دنیا کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہاں موجود بعض ہیرے مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ہیروں کے مقابلے میں دو سے دس گنا زیادہ مضبوط اور قیمتی بھی ہیں۔ قدرتی خزانے سے دریافت ہونے والا بوبیگائی ہیرا مارکیٹ میں ملتے جلتے ہیروں سے دگنا طاقتور ہے۔ خلائی حادثے کے نتیجے میں کرہ زمین کو ملنے والا یہ خزانہ سائنس اور صنعت کی دنیا میں بے پناہ ترقی کا موجب بن سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی قیمتی جواہرات کا خزانہ ہے۔ ہماری کہکشاں ’’ملکی وے‘‘ ہیروں سے بھرے بادل بھی موجود ہیں۔ جبکہ خلا میں ایک ایسی دھات بھی دریافت ہوئی ہے، جو کہ زمین پر زیر استعمال تمام دھاتوں سے دس ارب گنا زیادہ مضبوط ہے۔ یہ دھات نیوٹران ستارے میں پائی جاتی ہے۔ ماہرین نے مذکورہ دھات کو نیوکلیئر پاستا کا نام دے دیا ہے۔ یہ اس قدر ٹھوس ہے کہ اسے توڑنے کے لیے درکار قوت اسٹیل کو توڑنے کے لیے درکار قوت سے دس ارب گنا زیادہ ہے۔ یہ دھات نیوٹران اسٹار کی سطح سے ایک کلومیٹر نیچے ہے، جہاں ایٹمی نیوکلیائی مادے اس حد تک دبائو کا شکار ہیں کہ وہ نیوٹران اور پروٹان کے اس مکسچر کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوپائے ہیں۔ ان بیش قیمت دھاتوں کے حصول کیلئے امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی ایک مشن mining process تشکیل دیدیا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment