نواز شریف حکومت کو مہلت دینے پر تیار نہیں

امت رپورٹ
بیگم کلثوم نواز کے چہلم کے بعد بھی نواز شریف اور مریم نواز نے ابھی سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کیں۔ کیونکہ وہ ملکی سیاسی حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کو ابھی آئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے، لیکن اس کی ناکامیوں و نااہلی کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول حکمران جماعت کی تیزی سے گرتی ہوئی عوامی مقبولیت مستقبل میں نواز لیگ کیلئے مفید ثابت ہوگی۔ جبکہ اس وقت الیکشن سے پہلے کی صورتحال نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ دوسری جانب قانونی محاذ پر بھی نواز شریف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دیگر مقدمات کے علاوہ پانامہ کیس میں نیب کی سپریم کورٹ میں اپیل بھی موجود ہے۔ اس لئے نواز شریف نے پارٹی کے سینئر رہنمائوں کا مشورہ قبول کرلیا ہے کہ وہ نہ صرف جارحانہ سیاست بلکہ فی الحال سیاسی طور پر سرگرم ہونے سے گریز کریں، اور صرف اپنے مقدمات پر توجہ دیں۔ ممکنہ طور پر سیاسی حالات کا دھارا خودبخود ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق چلنے لگے گا اور یہ مشکل سیاسی دور بہت جلد ختم ہوجائے گا۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کی طرح نواز شریف کے متحرک ہونے سے عدالتی محاذ پر بھی ان کیلئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں اور پارٹی کو سیاسی طور پر نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پارٹی کے اندر بڑے فارورڈ بلاک کے امکان کو بھی نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔
شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم کے بچوں کی شادیاں ہوں یا قُل شریف اور چہلم جیسی سوگوار محافل۔ وہ اپنے خاندان، قریبی رشتہ داروں اور احباب کے علاوہ کسی کو نہیں بلاتے۔ ماضی قریب میں شریف برادران کے چھوٹے بھائی عباس شریف کی وفات اس کی مثال ہے۔ بیگم کلثوم نواز کا چونکہ قومی سیاست میں ایک اہم کردار رہا اور ان کی موت بھی ایسے وقت ہوئی جب ان کے شوہر اور بیٹی پاس نہ تھیں جبکہ تدفین میں بیٹے شریک نہیں ہو سکے۔ اس لئے لوگوں کی بڑی تعداد ان کے جنازے اور قل میں بیگم صاحبہ سے عقیدت اور غم کی وجہ سے شریک ہوئی۔ لیکن چہلم کا فیصلہ چونکہ ان کے ورثا نے کرنا تھا اور لوگوں کو اطلاع دینا تھی، جو انہوں نے نہیں دی اور اپنے طور پر چہلم کی رسم ادا کی گئی۔ ذرائع کے مطابق ملک کے معروف نعت خواں اور بزرگ شخصیت محمد عبدالرزاق جامی کا کئی دہائیوں سے شریف خاندان سے خلوص اور اعتماد کا تعلق ہے۔ میاں محمد شریف مرحوم ان سے عارفانہ کلام بڑی عقیدت سے سنتے تھے اور دوست احباب کی محفل میں عبدالرزاق جامی کو بلاتے تھے۔ اسی طرح نواز شریف بھی عبدالرزاق جامی کے گرویدہ ہیں اور انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ عبدالرزاق جامی ہفتے میں کم از کم دو دن رائے ونڈ میں گزارتے ہیں اور ہر جمعرات کی سہ پہر میاں محمد شریف کی قبر پر نعت خوانی کرتے ہیں۔ اب وہیں بیگم کلثوم نواز کی قبر ہے۔ شریف خاندان کے افراد جمعرات کو ہونے والی اس محفل میں شامل ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور خاندان کے افراد کے علاوہ قریبی احباب بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔
لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف اب موجودہ حکومت کے خلاف فوری سیاسی تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی رفقا کا یہ مشورہ تسلیم کرلیا ہے کہ حکومت خود اپنی نااہلی کی وجہ سے جائے گی اور اس کو لانے والے بھی اس نااہلی تسلیم کریں گے۔ اس وقت موقع ہوگا کہ نواز شریف کسی سیاسی کردار کیلئے آگے بڑھیں فی الحال محترک ہوکر حکومت کو اپنی ناکامی کا کوئی جواز نہیں دینا چاہئے۔
دوسری جانب جے یو آئی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ فضل الرحمان اور آصف زرداری کے درمیان ملاقات میں اپوزیشن اتحاد کیلئے خاصی مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور آصف علی رزداری نے، جو نواز شریف پر اعتماد کرنے اور ان سے ملاقات کے گریزاں ہیں، انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف سیاسی تحریک سے بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے وہ اِن ہاؤس تبدیلی کے امکانات کا جائزہ لیں، اس سلسلے میں وہ ان سے بھرپور تعاون پر تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق آصف زرداری نئے وزیراعظم کیلئے راجہ پرویز اشرف کو امیدوار بنانے پر بھی آمادہ ہیں بشرطیکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قیادت اس پر مثبت جواب دے۔ جے یو آئی کے ایک معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اختر مینگل سے مولانا فضل الرحمان کا مؤثر رابطہ ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ سے اگر پی پی قیادت سنجیدہ روابط کرے اور کراچی و سندھ میں ان سے تعاون کرے تو پی ٹی آئی کے وہ ممبران جو آزاد حیثیت میں جیت کر اس میں شامل ہوئے، ان کی مدد سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اسی ذریعے کے بقول لیکن آصف زرداری پر ان حالات میں جبکہ وہ بری طرح مقدمات میں دھنسے ہوئے ہیں، اعتماد کرنا خاصا مشکل ہے کہ وہ واقعی اس تجویز میں سنجیدہ ہیں یا کسی کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment