امریکہ افغانستان سے فوج نکالنے پر آمادہ ہوگیا

امت رپورٹ
واشنگٹن افغانستان سے اپنی فوج نکالنے پر آمادہ ہو چکا ہے، تاہم وہ افغانستان میں اپنے مستقل اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یہی امریکی اصرار طالبان کے ساتھ پہلی بار براہ راست مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ پچھلے چار ماہ کے دوران قطر میں ان باہمی مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں۔ اسی دوران ایک بار پھر پاکستان میں گرفتار ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی خبریں چلی ہیں، اور اس اقدام کو قطر میں جاری مذاکرات سے جوڑا جا رہا ہے۔ تاہم اس سارے معاملے سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اول تو موجودہ سنیاریو میں ملا برادر کی رہائی خاص اہمیت نہیں رکھتی، اور پھر یہ کہ انہیں چند برس پہلے محدود رہائی دے دی گئی تھی۔
سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عمر کے سابق نائب ملا عبدالغنی برادر کو قریباً پانچ برس پہلے ستمبر 2013ء میں کابل حکومت کی درخواست پر جیل سے رہا کر دیا گیا تھا، تاکہ افغان امن عمل میں ان کی مدد حاصل کی جا سکے۔ افغان حکومت کا خیال تھا کہ ملا برادر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات پر قائل کر سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دراصل ملا برادر کو محدود رہائی دی گئی تھی۔ انہیں جیل سے نکال کر پشاور کے ایک گھر میں رکھا گیا تھا۔ یعنی ایک طرح سے وہ نظر بند تھے۔ جہاں ایک افغان وفد سے ان کی ملاقات بھی کرائی گئی تھی۔ افغان حکام ملا برادر کو افغانستان لے جانا چاہتے تھے، لیکن پاکستان نے اس کی اجازت نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق اس وقت طالبان قیادت کے اندر ملا برادر کے کچھ لنکس موجود تھے۔ خیال تھا کہ ملا برادر طالبان قیادت میں موجود اپنے ان فالوورز اور وفاداروں کے ذریعے افغان امن عمل میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے طالبان کی سینئر ترین قیادت ملا برادر پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس لئے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کے بعد سے ملا برادر عملاً نظر بند ہیں۔
سیکورٹی ذرائع کے بقول موجودہ صورت حال میں ملا برادر کی رہائی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جس زمانے میں انہیں رہائی دی گئی تھی، اس وقت افغان طالبان کے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں ٹھکانے تھے۔ اس لحاظ سے طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ بھی تھا۔ تاہم فاٹا سے ٹھکانے ختم کئے جانے کے بعد افغان طالبان پر پاکستانی اثر و رسوخ بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اس وقت افغان طالبان پر ایران اور روس کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ ایک وقت میں ایران، طالبان کے خلاف تھا اور شمالی اتحاد کو سپورٹ کیا کرتا تھا۔ بعد ازاں ایرانیوں نے یہ ادراک کیا کہ امریکہ افغانستان سے جانا نہیں چاہتا اور شمالی اتحاد کو سپورٹ کرنے کا مطلب امریکیوں کو مضبوط کرنا ہے، اور بعد ازاں افغانستان میں داعش کی امریکی سرپرستی نے ایران کو طالبان کے مزید قریب کر دیا۔ داعش کو ایران اور روس دونوں اپنے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ داعش میں مقامی افغان جنگجوئوں کے علاوہ تاجکستان، ازبکستان اور چیچنیا کے جنگجوئوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، جنہیں امریکہ استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے ایرانی بلوچستان کے سنی مسلمانوں کو بھی ایران کے خلاف کارروائیوں کے لئے افغانستان میں رکھا ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس بدلتے سنیاریو نے ایران اور روس کو آہستہ آہستہ افغان طالبان کے قریب کرنا شروع کیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ روس اور ایران کھل کر افغان طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ لہٰذا اب پاکستان یا ملا برادر کے کہنے پر طالبان نہیں چلیں گے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ملا برادر کو رہا کر کے قطر مذاکرات میں پیش رفت کی جا سکتی ہے، درست نہیں۔
قطر مذاکرات کے حوالے سے سیکورٹی ذرائع نے بتایا کہ طالبان ایک طویل عرصے سے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تاہم امریکہ افغان حکومت کو بائی پاس کر کے بات چیت کرنے پر تیار نہیں تھا۔ تاہم رواں برس کے اوائل میں واشنگٹن نے اپنی اس پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی اور افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔ جس کے بعد جولائی میں امریکی حکام اور افغان طالبان کے درمیان پہلے براہ راست خفیہ مذاکرات ہوئے۔ دوہا میں ہونے والی اس میٹنگ میں خاتون امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز موجود تھیں۔ جبکہ چھ رکنی افغان وفد کو عباس ستنکزئی لیڈ کر رہے تھے، جو دوہا میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر بھی چلا رہے ہیں۔ اسی دفتر میں 2013ء میں بھی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی کے اعتراض پر ختم ہو گیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ جولائی سے قطر میں شروع ہونے والے نئے اور دو طرفہ مذاکرات میں بھی طالبان نے اپنے پرانے مطالبات امریکیوں کے سامنے رکھے۔ ان میں یہ تین بنیادی شرائط شامل ہیں کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے۔ سینئر طالبان رہنمائوں پر سفری پابندیاں ختم کی جائیں اور ان کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں سے نکالا جائے۔ ذرائع کے مطابق ایلس ویلز نے طالبان وفد سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان تمام مطالبات کو اعلیٰ امریکی حکام کے سامنے رکھیں گی۔ لہٰذا امن مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔ یوں قطر میں دو طرفہ بات چیت کے پہلے دور کے بعد تقریباً دو ہفتے قبل 12 اکتوبر کو مذاکرات کا دوسرا دور زلمے خلیل زاد اور طالبان وفد کے درمیان ہوا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس دوسرے دور میں بھی اس لئے پیش رفت نہیں ہو سکی کہ امریکہ نے افغانستان میں مستقل اڈے قائم رکھنے پر اصرار کیا۔ جس کے نتیجے میں مذاکرات میں ڈیڈ لاک آ گیا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار طالبان نے ان مذاکرات کی آفیشلی تصدیق کی۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ طالبان اور امریکی مذاکرات کاروں کے درمیان افغانستان پر امریکی قبضے کے پرامن خاتمے پر ڈسکس ہوئی۔ تاہم ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا کہ افغانستان میں غیر ملکی فورسز کی موجودگی امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والے معروف عسکری تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا بھی یہی کہنا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں شروع ہونے والے باہمی مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے، جب تک کہ امریکہ اپنی فوجوں کی مکمل واپسی سمیت تمام اڈے ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا۔ جنرل امجد شعیب قطر میں ہونے والے مذاکرات کی کافی انفارمیشن رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان پر آنے والے دبائو سے بھی آگاہ ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے جنرل امجد شعیب کا مزید کہنا تھا ’’اس وقت نہ صرف ایران اور روس، افغان طالبان کو سپورٹ کر رہے ہیں بلکہ طالبان کو ایران میں ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے۔ ان حالات میں یہ سوچنا کہ طالبان، پاکستان یا ملا برادر کے کہنے پر چلیں گے، ممکن نہیں۔ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ طالبان کا سارا انحصار پاکستان پر تھا۔ اس لئے کہ وہ ہمارے علاقے میں تھے۔ ہم نے ان کو نکال دیا۔ اب افغان طالبان کو ایران اور روس کی طرف سے پیسہ اور دیگر وسائل مل رہے ہیں۔ لہٰذا وہ بات بھی ان کی ہی مانیں گے۔ آج سے ڈیڑھ برس پہلے روس نے طالبان کے مطالبات کی حمایت کر دی تھی، جو انہوں نے امریکہ کے سامنے رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اتنی بڑی سپورٹ مل جائے، ساتھ میں پیسہ اور دیگر وسائل بھی ملیں تو طالبان کا رخ اسی طرف ہی ہونا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اس وقت افغان طالبان آزادانہ طور پر چین، روس اور ایران آتے جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ عالمی تنہائی کا شکار نہیں۔ اسی طرح امریکہ بھی اب براہ راست طالبان سے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کے لئے اسے پاکستان کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قطر میں جاری مذاکرات میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں‘‘۔ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا ’’میں نے ہر طرح سے چیک کیا ہے اور مجھے ہر طرف سے یہی انفارمیشن ملی ہے کہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کی دونوں نشستوں میں پاکستان کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ دراصل امریکہ نے بھارتی ایما پر پاکستان پر پیسے کھا جانے، دھوکہ دینے، ڈبل گیم کھیلنے اور حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کے الزامات لگائے۔ اصل مقصد یہ تھا کہ جھوٹی کہانیاں گھڑ کر پاکستان کو سائیڈ کر دیا جائے۔ لیکن کہانی اس وقت پلٹی جب روس نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے ماسکو میں میٹنگ بلا لی۔ تاہم 3 ستمبر کو شیڈول یہ میٹنگ افغان حکومت کی درخواست پر ملتوی کر دی گئی۔ اب نئی تاریخ کا تعین کیا جا رہا ہے۔ امریکہ دیکھ رہا ہے کہ طالبان پر روس کا خاصا اثر و رسوخ ہو گیا ہے اور وہ جب چاہے انہیں مذاکرات کے لئے بلا سکتا ہے۔ یہ بات امریکہ کے لئے ناقابل قبول ہے اور کسی صورت اس کے مفاد میں نہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن لانے کا Initiative روس کے ہاتھ میں چلا جائے۔ ظاہر ہے کہ روس جب افغانستان میں امن کے لئے طالبان سے بات کرے گا تو اپنی شرائط اور مفادات کو آگے رکھے گا۔ اس طرح معاملات امریکہ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ جبکہ امریکہ ان مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے نہ تو روس کو دبائو میں لا سکتا ہے اور نہ ہی ایران اور چین پر پریشر ڈال سکتا ہے۔ اب رہ گیا پاکستان، تو اس نے اسلام آباد کو ماسکو سے دور رکھنے کے لئے دوبارہ بہتر تعلقات بنانے کی بات شروع کی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ پومپیو پاکستان آئے تھے۔ اگر روس نے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع نہ کیا ہوتا تو امریکہ نے پاکستان کو سائیڈ کرنے کا پورا پلان بنا کر اس پر عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ دوسری جانب یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ قطر مذاکرات میں طالبان نے امریکیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی تمام فوج کے انخلا کے ساتھ اپنے اڈے بھی ختم کر دے۔ اور یہ ٹائم لائن دی جائے کہ مکمل امریکی فوج کب افغانستان سے جائے گی۔ اڈے کس تاریخ تک ختم کر دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد ہی دیگر معاملات پر مذاکرات کئے جائیں گے۔ جبکہ امریکہ کا اصرار ہے کہ فوج تو وہ نکال لے گا، لیکن مستقل اڈے قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس نقطے پر مذاکرات میں پیش رفت رکی ہوئی ہے۔ افغانستان میں امریکی اڈے قائم رکھنے کا مطلب ہے کہ وہاں امریکی اٹیک ہیلی کاپٹر، ڈرونز اور فائٹر ایئر کرافٹ موجود رہیں گے۔ یعنی وہ جب چاہیں طالبان پر بمباری کر سکتے ہیں۔ انہیں ڈرونز سے نشانہ بنا سکتے ہیں‘‘۔ جنرل امجد شعیب کے مطابق پاکستان پر اب امریکہ یہ دبائو ڈال رہا ہے کہ افغانستان میں امریکی اڈے قائم رکھنے پر طالبان کو کسی طرح قائل کر لے۔ تاکہ بات چیت آگے بڑھ سکے۔ تاہم پاکستان کا جواب ہے کہ وہ اب طالبان سے یہ بات منوانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ ادھر امریکہ کو خوف ہے کہ روس میں مجوزہ امن مذاکرات میں شرکت کے لئے افغانستان بھی چلا جاتا ہے اور وہ طالبان کے اس مطالبے کو اگر تسلیم کر لیتا ہے کہ امریکہ فوج سمیت اپنے اڈے بھی ختم کر دے تو امریکہ کے لئے بڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔ لہٰذا ماسکو مذاکرات سے پہلے ہی امریکہ، قطر مذاکرات کو کامیاب بنانے کا خواہاں ہے۔ اور اس کے لئے پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ وہ کسی طرح افغانستان میں اڈے ختم کرانے سے متعلق طالبان کی شرط ختم کرا دے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment