ہاروت ماروت:
(حدیث) حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اکرمؐ سے یہ فرماتے ہوئے سنا:
(ترجمہ): خدا تعالیٰ نے جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو فرشتوں نے عرض کیا: اے پرودگار! آپ زمین میں ایسے لوگوں کو پیدا کریں گے، جو اس میں فساد کریں گے اور خونریزیاں کریں گے اور ہم برابر تسبیح کرتے رہتے ہیں اور آپ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: میں جانتا ہوں اس بات کو، جس کو تم نہیں جانتے۔ انہوں نے عرض کیا: اے ہمارے پروردگار! ہم تو انسانوں سے زیادہ آپ کے تابع فرمان ہیں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا (تو پھر) تم فرشتوں میں سے دو فرشتوں کو پیش کرو، ہم ان کو زمین پر اتارتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، تو انہوں نے عرض کیا: اے ہمارے پروردگار! (اس آزمائش کے لیے) ہاروتؑ اور ماروتؑ (موزوں ہیں، کیونکہ یہ بہت پارسا ہیں) تو انہیں زمین پر اتار دیا گیا تو ان کے لیے زہرہ (ستارہ) کو انسانوں سے زیادہ حسین بنا (کر بھیج) دیا گیا، جب یہ ان دونوں کے پاس آئی تو انہوں نے اس سے اس کا جسم طلب کیا، تو اس نے کہا قسم بخدا بالکل نہیں جب تک کہ تم شرک کا کلمہ نہیں کہتے۔ انہوں نے کہا: نہیں خدا کی قسم، ہم خدا کے ساتھ کبھی شرک نہیں کریں گے، تو وہ ان کے ہاں سے چلی گئی۔ پھر ایک بچے کو اٹھا کر (ساتھ) لے آئی، تب بھی انہوں نے اس سے اس کا جسم طلب کیا۔ تو اس نے کہا: بالکل نہیں قسم بخدا یہاں تک کہ تم اس بچے کو قتل کر دو۔ انہوں نے کہا: خدا کی قسم، ہم اس بچے کو کبھی قتل نہیں کریں گے، تب بھی وہ چلی گئی۔ پھر ایک پیالہ شراب کا اٹھا کر لوٹی تو بھی انہوں نے اس سے اس کا جسم طلب کیا۔ تو اس نے کہا: بالکل نہیں خدا کی قسم یہاں تک کہ تم اس شراب کو پیو تو انہوں نے شراب پی تو نشہ میں آگئے اور اس پر واقع ہوگئے اور بچے کو بھی قتل کر ڈالا، پھر جب ہوش میں آئے تو اس عورت نے کہا خدا کی قسم تم نے کچھ نہیں چھوڑا، جس کا تم نے میرے سامنے انکار کیا، وہ سب تم نے نشہ میں کر ڈالا ہے۔
پھر ان دونوں کو (سزا کے لیے) دنیا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے عذاب دنیا کو اختیار کر لیا۔
(فائدہ) اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور ابن حبان نے صحیح میں روایت کیا ہے جو اس کی استناد کے لیے کافی ہے۔ اس روایت کے آئندہ طرق اور متعدد تخریجات اور علامہ سیوطیؒ اور حافظ ابن حجرؒ کے فیصلہ سے اس واقعہ کے وقوع کی قطعیت ثابت ہوتی ہے۔ علامہ سیوطی اور حافظ ابن حجر کا فیصلہ اس عنوان کی احادیث کے آخر میں ملاحظہ ہو۔(جاری ہے)