معارف ومسائل
فیومئذ… یعنی اس دن کسی انسان یا جن سے اس کا گناہ نہ پوچھا جائے گا، اس کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ ان لوگوں سے قیامت میں یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں جرم کیا ہے یا نہیں، وہ تو فرشتوں کے لکھے ہوئے اعمال ناموں میں محفوظ اور حق تعالیٰ کے علم ازلی میں اس سے پہلے سے موجود ہے، بلکہ سوال یہ ہوگا کہ فلاں جرم تم نے کیوں کیا، یہ تفسیر ابن عباسؓ کی ہے اور مجاہد نے فرمایا کہ فرشتے جو مجرمین کے عذاب پر مامور ہیں، ان کو مجرمین سے پوچھنے کی ضرورت نہ ہوگی کہ تم نے یہ جرم کیا ہے یا نہیں، بلکہ ہر جرم کی ایک خاص نشانی مجرمین کے چہروں سے ظاہر ہوگی، فرشتے وہ نشانی دیکھ کر ان کو جہنم میں دھکیل دیں گے، اگلی آیت میں یہی مضمون آیا ہے، ان دونوں تفسیروں کا حاصل یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جبکہ محشر میں حساب کتاب کے بعد مجرمین کے جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ ہو چکے گا، تو اب ان سے ان کے گناہوں کے بارے میں کوئی گفتگو نہ ہوگی، وہ علامت سے پہچان کر جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔
اور حضرت قتادہؒ نے فرمایا کہ یہ اس وقت کا حال ہے جب ایک مرتبہ ان سے ان کے جرائم کی پرسش ہو چکے گی اور وہ انکار کر دیں گے، قسمیں اٹھالیں گے، تو ان کے مونہوں اور زبانوں پر مہر کر دی جائے گی، ہاتھوں، پاؤں کی گواہی لی جائے گی، یہ تینوں تفسیریں ابن کثیر نے نقل کی ہیں، تینوں متقارب ہیں کوئی اختلاف نہیں۔
یعرف المجرمون… سیماء کے معنی علامت کے ہیں ، حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ اس روز مجرمین جن کو جہنم میں ڈالنے کا فیصلہ ہوگا، ان کی علامت یہ ہوگی کہ چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں ہوں گی، رنج و غم سے چہرے فق ہوں گے، فرشتے اسی علامت کے ذریعے ان کو پکڑیں گے۔
نواصی ناصیتہ کی جمع ہے، پیشانی کے بالوں کو کہا جاتا ہے، نواصی اور اقدام سے پکڑنے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کو سر کے بال پکڑ کر گھسیٹا جائے گا، کسی کا ٹانگیں پکڑ کر یا کبھی اس طرح کبھی اس طرح گھسیٹا جائے گا اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ پیشانی کے بالوں اور ٹانگوں کو ایک جگہ جکڑ دیا جائے گا۔ (کذا قالہ الضحاک ، روح) (جاری ہے)