قسط نمبر39
سید ارتضی علی کرمانی
مرزا قادیانی سے مناظرہ:
پس منظر: دین متین کے دو بنیادی اصول ہیں۔ (1) خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر اور (2) نبی کریمؐ کی ختم رسالت پر اعتقاد رکھنا۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی فرد، فرقہ یا گروہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر تو یقین رکھے، مگر سرکار دو عالمؐ کی نبوت کو ختم رسالت کا درجہ نہ دے۔ کیوں کہ ختم رسالت پر یقین نہ رکھنے سے کسی کا اعتقاد نہ تو حق تعالیٰ جل شانہ پر ہو سکتا ہے اور نہ ہی کلام الٰہی شریف پر۔ اب آپ خود غور فرمائیں کہ جو کوئی خدا پر اور اس کے نازل کروہ قرآن پر ہی اعتقاد نہ کرے، پھر خود کو مسلمان بھی ثابت کرے تو اس فرد، فرقہ اور گروہ پر سوائے لعنت کے اور کیا بھیجا جاسکتا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی دراصل اس تحریک کا بانی تھا۔ جس کی سر پرستی انگریزوں اور ہندوؤں کے بظاہر مضبوط ہاتھوں میں تھی۔ اس سے قبل ہندو اور انگریز دونوں کئی ایک تحریکیں چلا کر ان کی ناکامی سے آگاہ ہو چکے تھے اور اب انہوں نے اہل اسلام سے ہی ایک ایسی تحریک چلانے کی کوشش کی، جس کی ناکامی بظاہر ناممکن نظر آتی تھی۔ انگریزوں نے پہلے تو اس منکر رسالت مآبؐ کو ایک بہت بڑے عالم دین کے روپ میں پیش کیا اور اپنے پادریوں کو بھی اس شخص سے شکستیں دلوائیں۔ جب اہل اسلام کا اعتقاد اس پر مضبوط ہونے لگا تو اپنے آقاؤں کے کہنے پر اس نے نبوت کا اعلان کر کے خود کو نبی اور مسیح موعود اور مہدی کہلانا شروع کردیا۔
اس سلسلے میں انگریزوں اور ہندوؤں کے زر خرید لوگ ہمیشہ کی طرح کام آئے۔ جب کہ جید علمائے کرام نے قدرے نرم رویہ اختیار کیے رکھا۔ مرزا غلام احمد نے علوم مروجہ عربی اور فارسی کے علاوہ علم طب میں بھی دسترس حاصل کی۔ 1864ء میں اس نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ میں نوکری کی اور یہاں ہی سے انگریز ڈپٹی کمشنر نے اپنے حکام بالا کو بتایا کہ ایک ایسا شخص ہے جو اہل اسلام کو منشتر کر سکتا ہے۔ چناں چہ چار برس کے بعد اس نے نوکری چھوڑ کر بظاہر اپنے باپ کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا۔ انگریزوں کی عطا کروہ دولت کے ساتھ اس نے اپنی اراضی خریدنی شروع کی اور کمزور عقیدہ مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا۔
مرزا کا باپ حنفی مذہب رکھتا تھا۔ ابتدا میں مرزا خود کو حنفی ہی کہتا رہا۔ اب دھیر دھیرے اس نے چھوٹے موٹے مناظروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ یوں اہل اسلام میں خود کو مشہور کرنا شروع کیا۔ 1979ء میں اس نے ایک اشتہار شائع کروایا کہ اس کا ارادہ ایک کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھنے کا ہے۔ جس میں اس کے مطابق اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کی تردید ہوگی اور اس کی 50 جلدیں ہوں گی۔ اہل اسلام اس وقت تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہے تھے۔ مسلمانوں نے ان جلدوں کی اشاعت کے لیے دل کھول کر عطیات دیئے، مگر مرزا اپنے آقاؤں کے حکم کے مطابق محض 4 جلدیں 1880ء تا 1884ء شائع کرائیں۔ مزید اشاعت یہ کہہ کر بند کر دی گئی کہ مرزا انکشاف کیا کہ حق تعالیٰ نے بذریعہ الہام اس کو اشاعت دین پر مامور فرمایا اور اس نے پہلے پہل خود کو مجدد کہنا شروع کیا۔انگریزوں نے 1886ء میں ایک مناظرہ مرزا کا آریہ سماجیوں کے ساتھ کروایا، جس میں آریہ سماجیوں کو مرزا کے ہاتھوں شکست سے دو چار کر کے اس کو ایک مناظر اسلام مدعی الہام کی حیثیت سے ہر طرف مشہور کردیا۔ اس طرح غیر مسلم آقاؤں نے مرزا کا ایک عقیدت مند گروہ پیداکردیا۔ جس میں حکیم نور دین طبیب ریاست جموں و کشمیر جیسے بار سوخ مشیر و معاون بھی شامل تھے۔ابھی تک مرزا کے تمام عقائد راسخ العقیدہ مسلمانوں ہی کے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ جب مسلمانوں میں اس کی قدر منزلت بڑھی تو اس نے ان تمام عقائد کو مسخ کر ڈالا اور خود کو مسیح موعود کہنا شروع کیا۔ اغلب ہے کہ اس کا مشورہ اس کو اس کے مشیر خاص حکیم نوردین نے دیا، مگر یہ حکم لگتا ہے کہ غیر مسلم آقاؤں کا تھا۔(جاری ہے)