سرفروش

قسط نمبر153
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
امر دیپ نے میری کیفیت محسوس کر کے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’خیریت تو ہے ناں بہادر بھائیا؟ آپ کو کیا نظر آگیا جیپ کے پچھلے حصے میں؟‘‘۔
میں نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے فرنٹ کی سیٹوں کے درمیان سے مزید جھک کر پیڑوں کے دونے کو کمبلوں سے ہٹا کر جیپ کے فرش پر رکھا اور پھر اس کمبل کو پکڑ کر پوری طرح ہٹا دیا۔ میرا اندازہ درست نکلا۔ میری نظروں کے سامنے مانو گہری نیند سو رہا تھا۔
اس دوران میں امر دیپ بھی تجسس کے تحت جیپ کے عقبی حصے میں جھانکنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ مانو پر نظر پڑتے ہی وہ حیرانی سے تقریباً چیخ پڑا۔ ’’اوئے یہ کاکا یہاں کیسے پہنچ گیا؟‘‘۔
میں نے کمبل دوبارہ مانو پر ڈالا اور اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی بچے تو بادشاہ ہوتے ہیں۔ ان پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ یہ ہمارے ساتھ پٹیالے جانے کی ضد کر رہا تھا۔ آپ نہیں مانے تو اس نے خود راستہ نکال لیا!‘‘۔
امر دیپ بھی اس دوران سیدھا ہوکر بیٹھ چکا تھا۔ ’’یار یہ سر پھرا مانو شاید رات کو ہی میری جیپ میں چھپ گیا ہوگا، تاکہ میں علی الصباح چپکے سے نہ نکل جاؤں۔ شکر ہے سیر و شکار کی مہموں پر اکثر جاتے رہنے کی وجہ سے میری جیپ میں کمبل وغیرہ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، ورنہ یہ الّو کا پٹھا اب تک ٹھٹھر کر بیمار پڑچکا ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اتنا فاصلہ طے کر چکے ہیں کہ اسے واپس گھر چھوڑ کر آنا بھی ممکن نہیں ہے‘‘۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یہ ارادے کا پکا ہے بھائی۔ مان لو کہ اس کا شوق جیت گیا اور ہم ہار گئے۔ اب اسے ساتھ لے جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے‘‘۔
امر دیپ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’اس میں تو کوئی شک نہیں۔ ویسے اسے پٹیالے ساتھ لے جانے میں کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں ہے۔ بس موسم کی سختی اور شہر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے ساتھ دھکے کھلانے سے اسے بچانا چاہتا تھا۔ چلو، اب یہ شکرا ساتھ لگ ہی گیا ہے، تو چلو اچھا ہے۔ پٹیالا بھی دکھا دوں گا‘‘۔
میں نے بات کو اپنی مرضی کے رخ پر موڑتے ہوئے کہا۔ ’’امر دیپ بھائی یہ تو دیکھو، میں بھی تو پٹیالا دیکھنے ہی بارہ سو میل کا سفر کر کے پنجاب آیا ہوں۔ مانو نے بھی اسی شوق سے مجبور ہوکر یہ حرکت کی ہے۔ لہٰذا آپ میرے ننھے دوست کو ڈانٹنا مت‘‘۔
امر دیپ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ارے نہیں یار، یہ تو میرا جگر ہے۔ اس کے لیے تو جان بھی حاضر ہے‘‘۔
اس دوران میں وہ جیپ کو ایک بار پھر پٹیالے کی طرف جانے والی سڑک پر چڑھا چکا تھا۔ یہاں سے سڑک کافی چوڑی ہوگئی تھی اور مسافر گاڑیاں بھی کثرت سے دکھائی دینے لگی تھیں۔ خوش گوار لیکن چمکیلی دھوپ میں سڑک کے دونوں طرف دوڑتے گندم کی لہلاتی فصلوں والے سرسبز کھیت نظروں کو ٹھنڈک اور فرحت بخش رہے تھے۔ سورج اوپر چڑھنے سے سردی کی شدت کم ہوگئی تھی۔ مناسب رفتار سے سفر کرتے ہوئے لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہم پٹیالا کے قریب پہنچ گئے۔
میں نے پٹیالے کی سیر میں اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’میلہ شروع ہونے میں تو ابھی ایک دو دن باقی ہیں۔ یہ بتادیں کہ اس شہر میں سیاحت کے لحاظ سے قابلِ ذکر مقامات کون کون سے ہیں؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’بھائی یہ شہر راجوں مہاراجوں کی بنوائی ہوئی عالی شان عمارتوں سے بھرا پڑا ہے۔ آج شام تک تو تم دو چار جگہیں ہی دیکھ سکو گے۔ ایسا کرتے ہیں، میں تمہیں موتی باغ محل چھوڑ کر ترکاری منڈی چلا جاؤں گا۔ تم ڈیڑ ھ دو گھنٹے محل اور باغ کی سیر کرنے کے بعد تانگا لے کر یا پیدل قلعہ مبارک چلے جانا، وہاں گھومنا پھرنا۔ کوشش کروں گا کہ میں بھی مانو کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ جاؤں‘‘۔
میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’لیکن قلعہ مبارک تو بٹھنڈا میں ہے ناں؟‘‘ یہ کہہ کر مجھے اپنی زبان پر قابو نہ رکھ پانے پر غصہ آیا۔ میں نے بٹھنڈا سے اپنی واقفیت راز میں رکھنے کی کوشش میں جلدی سے کہا۔ ’’میں نے بومبے میں ایک ٹورسٹ بک میں پڑھا تھا‘‘۔
امر دیپ کو اثبات میں سر ہلاکر مسکراتا دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ ’’بھائی، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بٹھنڈا میں بھی ایک قلعہ مبارک موجود ہے اور دونوں ہی تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہرحال اس موسم میں قلعے کی سیر میں آپ کو لطف آئے گا۔ اگر مجھے قلعہ مبارک پہنچنے میں دیر ہو جائے تو انتظار کرلینا۔ ہمیں اکٹھے واپس گاؤں جانا ہے‘‘۔
شہر میں داخل ہونے سے ذرا پہلے ہم ایک بہت بڑی نہر کے پل پر سے گزرے۔ امر دیپ نے کہا۔ ’’یہ بھاکڑا نہر ہے، جو پورے علاقے کی خوش حالی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کئی سو میل پہلے دریائے ستلج سے نکلتی ہے اور راجستھان تک جاتی ہے۔ اب تو اس پر ایک ڈیم بھی بنایا جارہا ہے‘‘۔
شہر کی خاصی پر ہجوم سڑکوں پر مہارت سے جیپ چلاتے ہوئے امر دیپ نے بالآخر مجھے موتی باغ محل کے گیٹ کے سامنے اتار دیا۔ خدا جانے مانو واقعی ابھی تک جیپ کے عقبی حصے میں سویا ہوا تھا یا تایا ابو کی ناراضی کے ڈر سے دم سادھے پڑا تھا۔ مجھے امر دیپ کی اس سے محبت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود میں نے جیپ سے اترنے سے پہلے امر دیپ سے درخواست کی کہ مانو سے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے۔
میں اگر واقعی گھومنے پھرنے کی نیت سے ہی پٹیالا آیا ہوتا تو یقیناً مانو کو بھی ساتھ لے لیتا۔ لیکن مجھے تو اب اپنے مقصد کے لیے جانے کتنی گلیاں چھاننی تھیں۔ میں نے گیٹ سے اندر نظر ڈالی تو سامنے عظیم الشان محل دکھائی دیا، جس کے گرد دور دور تک سرسبز باغ پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ محل سینکڑوں ایکڑ رقبے پر محیط تھا اور اس کے تمام حصوں کی سیر کے لیے واقعی کئی گھنٹے بھی کم پڑیں گے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment