سدھارتھ شری واستو
چینی صدر نے ہانگ کانگ، مکائو اور چین کو ملانے والے دنیا کے سب سے بڑے سمندری پل کا افتتاح کر دیا ہے۔ اس سمندری پل کو عالمی ماہرین تعمیرات نے انجینئرنگ کا شاہکار قرار دیا ہے، جو دریائے پرل اور سمندر پر بنایا گیا ہے۔ ساڑھے چار لاکھ ٹن اسٹیل کے استعمال سے بنایا جانے والا 55 کلومیٹر طویل یہ پل مکائو سے چین اور ہانگ کانگ، جبکہ ہانگ کانگ سے مکائو اور چین پہنچنے والوں کیلئے ایک نعمت کے مترادف ہے، کیونکہ اس سے قبل تینوں ممالک کے شہریوں کو اس فاصلے کو طے کرنے کیلئے طویل سفر کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب یہی فاصلہ محض 30 منٹس کے اندر اندر طے ہوجایا کرے گا، جس کیلئے ماضی میں انہیں تین گھنٹوں کی ڈرائیونگ کرنا پڑتی تھی۔ چھ لین والا یہ پل کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی موٹر وے کی طرز پر انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا ہے اور صرف سات سال کی ریکارڈ مدت میں مکمل ہونے والا بیس ارب ڈالر کا یہ پروجیکٹ چینی ماہرین اور حکومت کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ پل2012ء میں بننا شروع ہوا تھا اور جولائی2018ء میں اس کو دی گئی ڈیڈ لائن سے محض دو ماہ قبل ہی مکمل کرلیا گیا۔ ایک دریا اور سمندر کے سینہ کو چیرنے اور 24 میل یا 55 کلومیٹر کی طوالت والا یہ پل کئی مقامات پر انٹرچینج کی طرز پر بنایا گیا ہے، تاکہ کسی بھی ایمر جنسی کی صورت میں ڈرائیور یا گاڑی کے واپس جانے کی صورت میں اس کو یو ٹرن کا سہارا مل سکے، جبکہ اس پل کو دریا میں بنانے اور سمندر میں اس کے دیو ہیکل ستونوں کو ایستادہ رکھنے کیلئے چینی کنسٹرکشن کمپنیوں نے زیر آب جزیرے بنائے تھے اور ایک درجن مصنوعی جزیروں کو انتہائی مضبوط پتھروں کے کنکریٹس سے سمندر کے سینے پر ابھارا گیا تھا اور اس کے بعد ان جزیروں پر پل کے طاقت ور سہارا بننے والے ستونوں کو کھڑا کیا گیا اور اس کے بعد اس پر پل تعمیر کیا گیا ہے جس کو ہزاروں آہنی رسیوں سے سہارا دیا گیا ہے تاکہ ہیوی ٹریفک کی صورت میں اس کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ جبکہ رات میں اس شاندار پل کو روشن رکھنے کیلئے اور اس پر پولیس اور ٹول پلازہ کے اہلکاروں کی آسانی کیلئے اسے سولر سسٹم سے بھی بجلی فراہم کی گئی ہے۔ چینی انجینئرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے پل کو سہارا دینے کیلئے تعمیرات کے دوران اس پر اسٹیل کی رسیوں کو باندھنے کیلئے اور متعدد دشوار گزار مقامات پرسلیب رکھنے کیلئے طاقت ور ڈرونز کا بھی استعمال کیا تھا، جو انسانی تعمیرات کے اس دور میں نیا تجربہ ہے۔ پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ٹریفک رواں دواں ہے اور کسی ایمر جنسی یا حادثہ کی شکل میں پولیس اور اسپیشل امدادی ٹیموں کو گاڑیاں اور اضافی افرادی قوت فراہم کی گئی ہے۔ جو پل کے دونوں اطراف اور درمیان میں موجود ہوں گے۔ اس عظیم انسانی کاوش اور انجینئرنگ کے شاہکار پل کے بارے میں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس پل کی تعمیر میں جہاں جزیرے بنائے گئے ہیں وہیں چار سرنگیں یا ٹنل بھی اس پل کا حصہ ہیں، جس میں سے ایک سرنگ سمندر کے اندر سے بھی گزرتی ہے جو دیکھنے اور گزرنے والوں کیلئے ایک عجوبہ ہے اور یہی ایک سمندری سرنگ چینی اور مکائو کے باشندوں کو ہانگ کانگ ایئر پورٹ سے قریب تر پہنچاتی ہے۔ چینی اخبارات اور سوشل سائیٹس کے مبصرین کا کہنا ہے کہ پل کے افتتاح کے بعد سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس پل کو دیکھنے اور اس پر سفر کرنے کیلئے تشریف لارہے ہیں، جو خود ایک اہم بات ہے۔ واضح رہے کہ چینی تعمیراتی حکام نے ماضی میں بھی سمندر پر ایک پل تعمیر کیا تھا، جس کی لمبائی 40 کلومیٹر ہے اور یہ پل اب بھی چینگ ڈائو کے ساحلی شہر میں ایستادہ ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ اس پل کی تعمیر سے مکائو، ہانگ کانگ اور چین کے شہر ژوہوئی کے شہری ایک ایسے بندھن میں بندھ چکے ہیں جس سے ان کے مفادات بھی مشترکہ ہیں اور یوں اس خطہ میں اس پل کی تعمیر نے انہیں ایک الگ شہر کی حیثیت دے دی ہے، جس کے بارے میں چینی اور ہانگ کانگ اور مکائو حکام سمجھتے ہیں کہ اس پل کے اطراف رہنے والے چار کروڑ بیس لاکھ افراد کیلئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے، جس کی بدولت تجارتی، معاشی اور معاشرتی رابطے مضبوطی کی جانب بڑھیں گے۔ واضح رہے کہ یہ پل صرف کاروں اور مخصوص وزن والے تجارتی ٹریفک کیلئے کھولا گیا ہے اور اس پر پیدل اور موٹر سائیکل والوں کیلئے داخلہ کی پابندی ہے۔ اس کی مضبوطی کے حوالہ سے انجینئرز کا کہنا ہے کہ یہ اس قدر طاقت ور اور مضبوط ہے کہ ہم نے اس کی عمر 120 برس رکھی ہے یعنی تقریبا سوا صدی تک اس پل کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ تینوں ممالک کے باشندوں کیلئے ایک رابطہ کار بنا رہے گا۔ افتتاح کے بعد پہلے روز اس پل پر سے 44,000 سے زیادہ گاڑیاں گزر چکی ہیں جبکہ میکائو اور ہانگ کانگ کی جانب جانے اور وہاں سے چین کی جانب آنے والوں کیلئے عوامی شٹل سروس بھی چلائی گئی ہے، جس کی لگژری بسیں ہر دس منٹوں کے بعد ڈپو سے نکل کر پل سے گزر رہی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے اس پل پر سفر کرکے اس کی شاہکار تعمیرات کو اپنی نگاہوں سے ملاحظہ کرلیا ہے اور اپنے تاثرات میں چین اور چینی انجینئرز کو دنیا کیلئے مثال قرار دیا ہے۔