امت رپورٹ
پولیس کی نااہلی نے پاکستان کوارٹرز کے علاقے کو میدان جنگ بنایا۔ ذرائع کے مطابق پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کیلئے آپریشن کی اطلاع ایک روز قبل ہی مکینوں کو دیدی تھی۔ ذرائع کے مطابق انہدامی کارروائی کا سن کر پاکستان کوارٹرز سمیت دیگر پانچ سرکاری کوارٹرز کی کالونیوں کے رہائشی افراد کی بڑی تعداد منگل کی رات ہی گھروں سے نکل آئی اور سینکڑوں لوگ علاقے کے داخلی راستوں پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ بدھ کی صبح انتظامیہ نے پولیس کے مدد سے آپریشن شروع کرنا چاہا تو مشتعل لوگوں نے شدید مزاحمت شروع کردی۔ طاقت کے بے تحاشا استعمال سے صورت حال بگڑ گئی اور مظاہرین و پولیس میں تصادم ہوا اور علاقہ میدان جنگ بنا رہا۔ پولیس نے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور پانی کی توپ چلا کر سرکاری کالونی میں گھسنے کی کوشش کی۔ اس دوران مزاحمت کرنے والے خواتین، بوڑھے اور بچے زد میں آکر بے ہوش اور زخمی ہوتے رہے۔ تاہم اس حوالے سے میڈیا پر خبریں نشر ہونے پر سپریم کورٹ نے آپریشن روکنے کا حکم دیدیا۔ جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ، ایڈیشنل آئی جی اور دیگر افسران کی جانب سے آپریشن کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ اس بارے میں سندھ اور وفاقی حکومت کے ذمہ دار ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت میں شامل بعض اہم شخصیات اور حکمران جماعت کے بعض اہم افراد کے خلاف نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں میں کرپشن کے مقدمات کھل رہے ہیں۔ شہر میں افراتفری پھیلانے کی سازش کا مقصد یہ ہے کہ وفاق پر دبائو ڈال کر احتساب کے عمل کو روکا جائے۔
واضح رہے کہ کراچی میں وفاقی سرکاری ملازمین کی 6 کالونیوں پاکستان کوارٹرز، کلیٹن کوارٹرز، مارٹن کوارٹرز، جہانگیر ایسٹ اور ویسٹ کوارٹرز اور ایف سی ایریا کے 5 ہزار کوارٹرز کو خالی کرانے کا معاملہ 1984ء سے چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ کوارٹرز خالی کراکے رپورٹ دی جائے۔ جبکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ان کوارٹرز میں سرکاری ملازمین کی جگہ دوسرے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ ان سے یہ کوارٹر خالی کرواکے وفاقی سرکاری ملازمین کو الاٹ کئے جائیں گے۔ یہ سرکاری کالونیاں اس وقت تعمیر کی گئی تھیں جب کراچی ملک کا دارالحکومت تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ان کوارٹرز میں ریٹائرڈ ملازمین، بعض کی بیوائیں یا ان کے بچے رہائش پذیر ہیں۔ ان کوارٹروں کو خالی کرانے کا معاملہ 1984ء سے عدالتوں میں چل رہا ہے۔ لیکن اس دوران آنے والی حکومتیں اپنا ووٹ بینک بنانے کیلئے ان کوارٹرز کے مکینوں کو لالی پاپ دیتی رہیں۔ 30 سال تک متحدہ اقتدار میں رہی اور اس دوران ان کوارٹرز کے مکینوں کو جعلی الاٹمنٹ آرڈر اور مالکانہ حقوق کے کاغذات تک دیئے گئے۔ لیکن جب سپریم کورٹ میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے دوبارہ معاملہ اٹھایا تو متحدہ کے مختلف گروپوں کے رہنما الگ الگ جاکر مکینوں کو اکسانے لگے کہ وہ جبری بے دخلی کی صورت میں بھرپور مزاحمت کریں۔ جس کے بعد ان 6 کالونیوں میں ایسے بینرز لگائے گئے، جن پر لکھا تھا ’’مکان یا موت‘‘۔ ذرائع کے مطابق متحدہ اور سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری کوارٹرز کے حوالے سے ہر کارروائی کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔ منگل کو ایسٹ پولیس کی جانب سے گارڈن میں واقع پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کی تیاری کی گئی کہ اگلی صبح آپریشن کیا جائے گا۔ تاہم منگل کی شام ہی پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کو آگاہ کر دیا کہ بدھ کی صبح آپریشن ہوگا۔ جس پر منگل کی شب ہی پاکستان کوارٹرز کے مکینوں نے دیگر پانچ کالونیوں کے رہائشیوں کو بھی بلوالیا۔ ذرائع کے مطابق انہیں باور کرایا گیا کہ اگر آج حکومت نے ان کوارٹرز کو خالی کرالیا تو پھر باقی کالونیاں بھی نہیں بچیں گی، لہذا حکومتی اقدام کیخلاف بھرپور مزاحمت ضروری ہے۔ اس طرح سینکڑوں افراد کو پاکستان کوارٹرز کے داخلی راستوں اور فردوس جامع مسجد کے سامنے جمع کرلیا گیا تھا۔ احتجاجی مظاہرین نے گیٹ بند کرکے دھرنا دیا، جو رات بھر جاری رہا۔ بدھ کی صبح 10 بجے ایسٹ زون پولیس کی بھاری نفری پہلے سولجر بازار پہنچی، پھر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کے ساتھ پاکستان کوارٹرز کی جانب گئی، جہاں نشتر روڈ والے پاکستان کوارٹرز کے داخلی راستوں پر مظاہرین نے پولیس کو روک دیا۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری لیڈی کانسٹبلز کے ساتھ اندر جانے کی کوشش کرتی رہی۔ نشتر روڈ پر شیلنگ، ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کرنے والے اہلکار موجود تھے۔ جبکہ واٹر کینن (پانی کی توپ) بھی بلوائی گئی تھی۔ جونہی پولیس نے مظاہرین کو دھکیل کر اندر جانے کی کوشش کی تو مظاہرین نے مزاحمت شروع کردی۔ مظاہرین اور پولیس والے ایک دوسرے پر پتھراؤ بھی کرتے رہے، جس سے مظاہرین اور چند پولیس والے زخمی ہوئے۔ بعد میں پولیس نے نہتے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ شروع کردی جس پر وہ گلیوں اور گھروں تک محدود ہوگئے۔ ہوائی فائرنگ سے جہاں خوف و ہراس پھیلا، وہیں آنسو گیس کی شدید شیلنگ سے گھروں میں موجود خواتین اور بچے بے ہوش ہوگئے۔ ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ پولیس کے لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن سے تیز دھار پانی نے خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو شدید متاثر کیا۔ پولیس مظاہرین کیخلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتی رہی۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ نے پولیس کو آپریشن ختم کرکے واپس آنے کی ہدایت دی۔ جبکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا تو عدالت نے جانی نقصان کے خدشات کے پیش نظر آپریشن روکنے کی ہدایت کر دی۔ جس کے بعد پولیس نے مظاہرین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی اور 10 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔ جبکہ زخمی لیڈی پولیس اہلکار سمیت دیگر 6 اہلکاروں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ دوسری جانب زخمی مظاہرین اور آنسو گیس سے بے ہوش ہونے والی خواتین و بچوں کو اسپتال پہنچانے کیلئے ایمبولینسوں کو علاقے میں نہیں گھسنے دیا گیا۔ مکینوں نے انہیں سڑکوں پر لاکر رکشوں ٹیکسیوں میں اسپتال پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق نجی اور اسپتالوں سرکاری اسپتالوں میں دو درجن زخمیوں اور بے ہوش افراد کو منتقل کیا گیا۔ عدالتی حکم پر آپریشن 3 ماہ کیلئے موخر کئے جانے کے حکم کے بعد بھی پاکستان کوارٹرز میں تاحال کشیدگی ہے۔
آپریشن کے دوران ’’امت‘‘ کے سروے میں دیکھا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار اور خواجہ اظہارالحسن الگ الگ متاثرین سے اظہار افسوس کررہے تھے۔ وہاں لوگوں نے فاروق ستار کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستار منگل کی شب سے سارے معاملے کو مانیٹرکررہے تھے اور آپریشن کے دوران بھی یہاں موجود تھے۔ دوپہر ایک بجے تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان بھی پاکستان کوارٹرز پہنچے۔ جونہی ان کی ڈبل کیبن کالی پراڈو گیٹ سے اندر آئی تو وہاں موجود لڑکوں نے متحدہ زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ انہوں نے مقامی نوجوانوں کو اکسایا کہ وہ تحریک انصاف والوں کو دھکے دے کر نکال دیں۔ پھر خرم شیر زمان کی گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا اور مکے مارے گئے جس پر وہ واپس چلے گئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بعض افسران لینڈ مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے سرکاری کوارٹرز کی قیمتی زمین پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر کراچی کے حالات خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوارٹرز کے مکینوں کا کہنا ہے کہ منگل کو آپریشن کیلئے باقاعدہ پلاننگ کی گئی تھی۔ واٹر کینن سمیت ایسٹ پولیس کی بھاری نفری اور کمانڈوز کے علاوہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کرنے والے اہلکاروں کو بلوایا گیا۔ اس سارے معاملے سے کراچی پولیس چیف کس طرح لاعلم تھے۔ سندھ اور وفاقی حکومتیں سارا ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال رہی ہیں کہ عدالتی حکم پر پولیس کوارٹر خالی کرانے گئی تھی۔ آپریشن کے دوران خواتین جھولیاں پھیلا کر حکومت اور پولیس کو بددعائیں دیتی رہیں۔ مقامی لوگوں کے بقول وزیراعظم عمران خان 50 لاکھ گھر بنانے کی اسکیم شروع کر چکے ہیں۔ اگر ان 5 ہزار سرکاری کوارٹرز کو اس اسکیم کا حصہ بنا دیا جائے اور یہاں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق کے کاغذات دے دیئے جائیں تو ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور بیوائیں وزیراعظم کو دعائیں دینگی۔ بعض خواتین کا کہنا تھا کہ وہ ان مکانات پر اپنی جمع پونجی لگا چکی ہیں۔ بغیر کسی متبادل کے حکومت انہیں کیسے بے دخل کرسکتی ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کو قابض قرار دے کر نکالا جارہا ہے۔ جبکہ کراچی میں سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے گوٹھ بنائے گئے اور بعد میں ان کو لیز دیدی گئی۔ ریلوے کی زمین پر قابض غریب خاندانوں کو بیدخل کرنے کے بجائے لیز دینے کا کہا جارہا ہے۔ لیکن ان سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کیلئے حکومت کے دل میں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ایک زخمی مکین سید محمود الحسن نے کہا کہ وفاقی اور سندھ حکومت سمیت کوئی سیاسی پارٹی اس معاملے پر سیاست نہ چمکائے۔ بلکہ سرکاری کوارٹرز کے مکینوں کو متبادل جگہ دی جائے یا ان کوارٹرز کے مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔ زخمی ساجد نے کہا کہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے والے اسٹیٹ افسران کا احتساب کیا جائے۔ پولیس آپریشن کے دوران مکینوں کی 7 گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔ مکینوں محمد ضمیر، محمد رحمان، محمد انور اور جبار کا کہنا تھا کہ عدالت سے 3 ماہ کی مہلت ملی ہے۔ اس دوران مسئلے کا حل نکالا جائے۔