حضرت وہب بن منبہؒ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حق تعالیٰ نے ابلیس کو حکم دیا کہ حضرت محمدؐ کے پاس جاؤ اور جو کچھ وہ پوچھیں جواب دو۔ چنانچہ شیطان ایک بوڑھے آدمی کی شکل میں ہاتھ میں چھڑی تھامے ہوئے حاضر خدمت ہوا۔
آپؐ نے پوچھا تو کون ہے؟ کہا: ابلیس۔ کیوں آیا ہے؟ جواب دیا کہ خدا کا حکم ہے کہ خدمت میں حاضر ہو کر جو آپ پوچھیں جواب دوں۔
حضور اقدسؐ نے پوچھا کہ اے ملعون میری امت میں تیرے کتنے دشمن ہیں؟ کہا پندرہ۔ سب سے پہلے تو آپؐ ہیں۔ دوسرے امام عادل یعنی عدل کرنے والا بادشاہ اور حاکم، تیسرا تواضع وعاجزی کرنے والا غنی، چوتھا سچا اور ایماندار تاجر، پانچواں خشوع وخضوع والا عالم دین، چھٹا ہمدردی رکھنے والا مومن، ساتواں رحم دل مومن، آٹھواں وہ تائب جو اپنی توبہ پر پختہ رہے۔ نواں حرام سے بچنے والا، دسواں وہ مومن جو طہارت وپاکیزگی سے رہنے والا ہو، گیارھواں وہ مومن جو صدقہ خیرات بکثرت دے، بارہواں وہ مومن جولوگوں سے اچھے اخلاق کا معاملہ کرتا ہو۔ تیرہواں وہ مومن جولوگوں کو
نفع پہنچاتا ہو، چودھواں وہ حافظ قرآن جو تلاوت کی پابندی کرتا اور عمل بھی کرتا ہے۔ پندرھواں وہ مومن جولوگوں کے سونے کے وقت میں رات کو اٹھ کر عبادت کرتا ہے۔
آپؐ نے پوچھا کہ میری امت میں تیرے دوست کون لوگ ہیں؟ کہا: دس ہیں۔ پہلا ظالم حکمران، دوسرا متکبر مالدار، تیسرا خیانت کرنے والا تاجر، چوتھا شرابی آدمی، پانچواں چغل خور، چھٹا زانی، ساتواں یتیم کا مال کھانے والا، آٹھواں نماز میں سستی کرنے والا، نواں زکوٰۃ نہ دینے والا، دسواں وہ شخص جو لمبی لمبی امیدیں باندھتا ہے۔ یہ لوگ میرے پکے ساتھی اور بھائی ہیں۔ (بحوالہ تنبیہ الغافلین ص524تا 525)
٭٭٭٭٭