میں نے موتی باغ محل کی پرشکوہ عمارت پر الوداعی نگاہ ڈالی اور کسی تانگے کی تلاش میں قریبی سڑک کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ جلد ہی میں دو روپیے کرایہ طے کر کے ایک تانگے پر اپنی منزل یعنی پٹیالا کی اناج منڈی کی طرف رواں دواں تھا۔ لگ بھگ تین میل کے سفر میں اردگرد کے خوب صورت قدرتی مناظر دیکھ کر مجھے ماننا پڑا کہ پٹیالا کی شہرت بلا وجہ نہیں ہے۔ یہ شہر بلاشبہ کئی اعتبار سے قابلِ دید ہے۔
اناج منڈی کی صورتِ حال لگ بھگ ویسی ہی تھی، جیسی ہندوستان اور پاکستان کے بیشتر شہروں کی اناج منڈیوں کی ہوا کرتی ہے۔ مختلف اقسام کے اناجوں کی بوریوں سے بھرے چھوٹے بڑے گودام اور آڑھتیوں کے دفاتر، بیل گاڑیوں، گھوڑا گاڑیوں اور مزدوروں کی ریل پیل۔ میں نے تانگے کا کرایہ چکانے کے بعد کسی ایسے شخص کی تلاش میں نظریں دوڑائیں، جس سے لال سنگھ فوٹوگرافر کی دکان کا پتا پوچھ سکیں۔ بالآخر میں نے ایک گوشے میں چھولے چاول کا ٹھیلا لگائے کھڑے شخص سے بات کرنے کی ٹھانی۔ اس کا صفا چٹ چہرہ اور پگڑی سے عاری سر بتا رہا تھا کہ وہ سردار نہیں ہے۔ اتفاق سے اس وقت اس کے پاس کوئی گاہک نہیں تھا، اور میں نے اپنے تجربے کی روشنی میں اس سے یگانگت پیدا کرنے کا موثر ترین حربہ آزمایا، یعنی پنجابی زبان میں اسے چاول چھولے کھلانے کی فرمائش کی۔ حالانکہ مجھے کھانے کی کوئی خاص طلب محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
میں شاید اس کے بالکل ابتدائی گاہکوں میں سے ایک تھا۔ چنانچہ اس نے خوش اخلاقی کے اظہار کے لیے اپنے ٹیڑھے میڑھے، میلے کچیلے دانت دکھائے اور ٹھیلے کے عقب میں بچھی چٹائی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ ’’سرکار بس دو منٹ لگیں گے، پیاز اور مولی کتر لوں، ان کے بغیر مزا نہیں آئے گا‘‘۔
میں نے دوستانہ لہجے میں کہا۔ ’’آرام سے کاٹو یار، کوئی جلدی نہیں ہے۔ ایسا کھانا کھلاؤ کہ دلّی پہنچ کر یادکروں‘‘۔
اس نے خوش ہوکر کہا۔ ’’فکرنہ کریں سرکار، میرے ہاتھ کے کھانے کی تو پوری پٹیالا ریاست میں دھوم ہے‘‘۔ پھر اس نے مجھے قدرے غور سے دیکھتے ہوئے قیاس لگایا۔ ’’آپ شاید میلے میں آئے ہیں؟‘‘۔
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ اس گھاگ شخص نے یقیناً میرے حلیے سے بھانپ لیا تھا کہ میں کوئی کٹر دھارمک (مذہبی) قسم کا آدمی نہیں ہوں۔ میں نے اپنے بارے میں اس کے قیاس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رازدارانہ لہجے میں اس کا نام پوچھا۔ اس نے قدرے تذبذب کے بعد کہا۔ ’’جی مجھے بنواری لال کہتے ہیں۔ متھرا میری جنم بھومی ہے‘‘۔
میں نے اپنے چہرے پر خوشامدی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ’’بنواری بھیا، آپ تو یہاں کے سب لوگوں سے واقف ہوں گے۔ کیا آپ قریب میں کسی فوٹوگرافر کی دکان کا پتا بتا سکتے ہیں؟‘‘۔
میری بات سن کر وہ کچھ چونکا اور پھر سوال کیا۔ ’’کیا آپ کو اپنی فوٹو کھنچوانی ہے؟‘‘۔
میں نے قدرے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’بنواری بھیا، برانہ ماننا۔ فوٹوگرافر کی دکان پر بندہ فوٹو کھنچوانے کے لیے ہی جاتا ہے، وہاں مٹکے صراحیاں تو نہیں بکتی ہیں ناں؟‘‘۔
وہ قدرے کھسیانا سا ہوگیا۔ ’’ناراض نہ ہوں۔ میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا تھا۔ دراصل یہاں قریب ہی ایک فوٹوگرافر کی دکان تو ہے، مگر وہ دوپہر تک ہی آتا ہے، اور پھر رات گئے تک کبھی دکان پر ملتا ہے، کبھی نہیں ملتا!‘‘۔
مجھے اس کے لہجے میں طنز کی جھلک نمایاں نظر آئی۔ چنانچہ اشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’کیوں بھیا؟ وہ دکان چھوڑ کر کہاں چلا جاتا ہے؟ کیا اسے روٹی کمانے سے دلچسپی نہیں ہے؟‘‘۔
بنواری لال کے چہرے کے بدلتے تاثرات سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں نے درست رگ چھیڑی ہے۔ اس نے رازدارانہ لہجے میں بتایا۔ ’’بھائی آپ اس شہر میں مہمان ہو، آپ سے کیا پردہ۔ لال سنگھ کا اصل دھندا کچھ اور ہے۔ یہ فوٹوگرافری تو وہ دکھاوے کے لیے کرتا ہے‘‘۔
میں نے گہری دلچسپی لیتے ہوئے اسی کے انداز میں رازداری سے پوچھا۔ ’’تو بھیا بنواری، اس لال سنگھ فوٹو گرافر کا اصل دھندا کیا ہے؟‘‘۔
اس نے محض احتیاطاً ادھر ادھر دیکھا اور پھر دور دور تک کسی کو متوجہ نہ پاکر کہا۔ ’’دوسرے شہروں سے آنے والے بیوپاریوں کو عورتیں سپلائی کرتا ہے وہ۔ بھگوان کے لیے کسی سے میرا نام نہ لینا، لیکن سنا ہے کہ مٹھو سنگھ کے ناری نکیتن (بے سہارا خواتین کے لیے پناہ گاہ) کے لیے بھی گاہک لے کر لاجاتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن ناری نکیتن میں ایسا گندا کام کیسے ہوتا ہے؟ اور یہ مٹھو سنگھ کون ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ’’آپ مٹھو سنگھ کو نہیں جانتے؟ وہ تو یہاں کے بہت بڑے نیتا (سیاسی رہنما) اور ممبر اسمبلی ہیں۔ راجا جی کے دور پرے کے رشتے دار بھی ہیں‘‘۔
میں نے لاپروائی سے کہا۔ ’’تو پھر تو واقعی ان مہاشے پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اچھا یہ بتاؤ اس لال سنگھ کی دکان کس طرف ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر وہ چونکا۔ ’’میں نے بتایا تو تھا…‘‘۔ پھر اس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ ابھری۔ ’’یوں کہو ناں بابو جی کہ آپ اسی کی تلاش میں آئے ہیں‘‘۔ مجھے بے نیازی سے اثبات میں سر ہلاتا دیکھ کر وہ شرارت آمیز لہجے میں بولا۔ ’’ٹھیک ہے بھیا، اس عمر میں زندگی کے مزے نہ لیے تو پھر کب لوگے؟ دکان کو چھوڑو، گھر جاکر مل لو۔ میرا نام لے لینا، رعایت کر دے گا۔ منڈی کے اس گیٹ سے نکل کر دائیں سے تیسری گلی میں پانچواں مکان اس کا ہے۔ نیلا دروازہ ہے۔ اکیلا ہی رہتا ہے‘‘۔
میں نے چاول چھولے کی پلیٹ لیے بغیر پانچ روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور اس کے چہرے پر اترتی والہانہ خوشی پر لعنت بھیجتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے پتے کی تلاش میں چل پڑا۔
لال سنگھ کا مکان ڈھونڈنے میں مجھے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی، البتہ کئی بار دروازہ کھٹکٹانے کے بعد کہیں اندر سے کھٹ پٹ کی کچھ آوازیں سنائی دیں۔ بالآخر دروازہ کھلا تو مجھے اپنے سامنے ایک موٹا اور بھدا سا، پستہ قد سکھ کھڑا دکھائی دیا۔ اس کی داڑھی مونچھوں کے بال بے ترتیبی سے آپس میں الجھے ہوئے تھے اور کیس بھی کھل کر کاندھوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ گہری نیند سے بمشکل اٹھ کر آیا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭