مدنی دور میں ایک موقع ایسا آیا کہ نبوت کے دولت کدہ میں چار دن تک کھانا میسر نہ ہوا۔ رسول اقدسؐ گھر تشریف لائے اور اپنی رفیقہ حیات سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے دریافت فرمایا: ’’کھانے کے لیے کوئی چیز ہے؟‘‘
حضرت عائشہؓ نے عرض کیا ’’کچھ نہیں ہے، حق تعالیٰ تو آپ ہی کے ہاتھوں ہمیں مرحمت فرماتے ہیں۔‘‘
حضور اقدسؐ (یہ سن کر) خاموش ہوگئے۔ وضو فرمایا اور مسجد میں مسلسل نفل پڑھنے لگے۔ ہر بار آپ جگہ تبدیل کرتے جاتے تھے۔ اتنے میں حضرت عثمانؓ آگئے اور اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے چاہا عثمانؓ کو آنے کی اجازت نہ دوں۔ پھر یہ خیال کر کے کہ یہ مالدار صحابہؓ میں سے ہیں۔ شاید حق تعالیٰ نے ان کے ذریعے ہم تک نیکی پہنچانے کا قصد کیا ہو۔ لہٰذا میں اجازت دے دی۔
سیدنا عثمانؓ نے مجھ سے حضور اقدسؐ کا حال دریافت کیا۔ میں نے جواب دیا اے صاحبزادے! چار یوم سے اہل بیت رسالتؐ نے کچھ نہی کھایا۔ (یہ سنتے ہی) حضرت عثمانؓ نے رو کر کہا: تف (کلمہ افسوس) ہے دنیا پر! پھر کہا: اے ام المومنین! یہ مناسب نہیں کہ آپ پر ایسے حالات گزریں اور آپ مجھ سے ذکر نہ کریں یا عبد الرحمن بن عوفؓ یا ثابت بن قیسؓ جیسے مالداروں سے۔
سیدنا عثمان ذوالنورینؓ یہ کہہ کر واپس لوٹے اور اونٹ، آٹا، گیہوں، کھجوریں، ایک بکرا اور سو درہم لا کر پیش کیے۔ پھر کہا یہ تو دیر سے تیار ہوگا، میں پکا ہوا کھانا بھی لاتا ہوں۔ چنانچہ روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت لائے اور کہا کھائیے اور حضور اقدسؐ کے لیے بھی رکھ دیجیے۔ پھر ام المومنین حضرت عائشہؓ کو قسم دی کہ آئندہ جب کبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو مجھے ضرور مطلع کریں اور خدمت کا موقع دیں۔
حضرت عثمانؓ کے چلے جانے کے بعد حضور اقدسؐ تشریف لائے۔ دریافت فرمایا: (اے عائشہ! میرے بعد تم کو کچھ ملا؟) تو میں نے عرض کیا: حضور! آپ حق تعالیٰ سے دعا کرنے گئے تھے اور آپ جانتے ہیں رب تعالیٰ آپ کی دعا کبھی رد نہیں فرماتا۔ حضور اقدسؐ نے استفسار فرمایا کیا ملا؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: آٹا، گیہوں، کھجوریں اونٹوں پر لدی ہوئی اور درہم کی تھیلی۔ ایک بکرا، روٹی اور بہت سا بھنا ہوا گوشت۔
آپؐ نے فرمایا: کس نے دیا؟ عرض کیا: عثمان بن عفانؓ نے اور وہ قسم دلا گئے ہیں کہ آئندہ جب ایسا موقع آئے تو مجھے اطلاع ضرور کرنا۔ رسول اقدسؐ نے خوش ہو کر انہیں دعا دی۔ (بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭