محمد قاسم
افغان مسئلے کے حل کیلئے آئندہ جمعرات کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ نے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے افغان طالبان کے پانچ رہنمائوں سمیت مغربی افغانستان کیلئے طالبان کے ملٹری چیف اور طالبان انٹیلی جنس کے سربراہ عبدالصمد فاروقی عرف ملا ابراہیم پر سفری پابندی عائد کر دی ہے۔ عبدالصمد فاروقی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایران کے پاسداران انقلاب کے ملٹری چیف جلال واحدی اور اسماعیل رضوی کے ساتھ مغربی افغانستان میں دو مہینے تک ملاقاتیں کی ہیں اور ان سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ عبدالصمد فاروقی پر سعودی عرب، بحرین، قطر، اومان اور متحدہ عرب امارات نے بھی سفری پابندی عائد کردی ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی پاسداران انقلاب کے عہدیداروں جلال واحدی اور اسماعیل رضوی پر بھی سفری پابندی ماسکو کانفرنس کے اعلان سے ایک روز قبل عائد کی گئی۔ واضح رہے کہ افغان طالبان کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور قوی امکان ہے کہ ایران کو بھی اس کانفرنس میں بلایا جائے گا۔ تاہم ان پابندیوں سے ایران کو تشویش ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان مسئلہ کے حل کیلئے روس کی زیر قیادت کوئی کوشش امریکہ کو قابل قبول نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی روس میں اس حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس ملتوی ہو چکی ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں سے افغان طالبان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ان کا بیرونی ممالک میں نہ تو کوئی کاروبار ہے اور نہ ہی وہ مالی معاملات رکھتے ہیں۔ افغانستان کے اندر بھی افغان طالبان کا کوئی بینک اکائونٹ نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان کو ماسکو کانفرنس کا دعوت نامہ ملا ہے، لیکن اس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ قطر دفتر کرے گا۔ طالبان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حکومت پاکستان کی جانب سے ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ اپنے خاندان کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ تاہم فی الحال انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ انہیں مذاکرات کیلئے رہا کیا گیا ہے، لیکن وہ کس حیثیت سے مذاکرات میں حصہ لیں گے، یہ فیصلہ شوریٰ کرے گی۔ ذرائع کے بقول قوی امکان ہے کہ ملا برادر کو افغان مذاکراتی کمیشن کا سربراہ بنایا جائے گا، کیونکہ وہ طالبان کے ملٹری چیف رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ دو اور طالبان رہنمائوں کو بھی رہا کیا گیا ہے، تاہم ان کے نام سامنے نہیں آئے۔ یاد رہے کہ 2012ء میں ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ افغان حکومت کے ایک اعلیٰ وفد نے ملاقات کی تھی اور انہیں افغان حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ تین سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود امریکہ اور افغان حکومت ملا عبدالغنی برادر کو توڑنے میں ناکام رہے، جس کے بعد انہیں رہا کر کے قطر پہنچا دیا گیا۔ ذرائع کے بقول ملا برادر کی رہائی کا بنیادی مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔ ادھر طالبان کے دعوت و ارشاد کمیشن کے ملا صالح بلخی نے کہا ہے کہ ملا برادر کی رہائی کا بنیادی مقصد افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ فی الوقت طالبان کے دیگر رہنمائوں پر پابندی ہے اور ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی، جو مذاکرات کو آگے لے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ افغان طالبان کے قطر دفتر نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات میں ملا برادر کی رہائی کی درخواست کی، جس پر زلمے خلیل زاد نے قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام سے کہا تھا کہ وہ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کیلئے پاکستان سے اپیل کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ہی ان کی رہائی عمل میں آئی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے اہم رہنما عبدالصمد فاروقی پر سفری پابندی سے مذاکرات کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ افغان طالبان کے انٹیلی جنس سربراہ اور خفیہ آپریشنز کے نگران بھی ہیں۔ ان کے خلاف ممکنہ کارروائی سے مذاکرات سبوتاژ بھی ہوسکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ماسکو کانفرنس سے قبل پابندی کا اعلان امریکہ کی جانب سے واضح پیغام ہے کہ وہ کسی ایسی کانفرنس کو کامیاب نہیں ہونے دے گا جس کی میزبانی روس کرے۔ جبکہ روس نے افغان حکومت کو بھی دعوت دی ہے، تاہم افغان حکومت نے ابھی تک کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل بھی روس میں ہونے والی ایک کانفرنس کو ملتوی کرنا پڑا تھا، کیونکہ اس میں افغان حکومت نے شرکت سے انکار کردیا تھا۔ دوسری جانب نیٹو کے سربراہ نے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ نیٹو صرف افغان طالبان اور امریکہ کے براہ راست مذاکرات کو ہی سپورٹ کرے گا۔ دیگر مذاکرات کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہوں نے روس کا نام لئے بغیر کہا کہ بعض ممالک اس مسئلے کا حصہ ہی نہیں، لیکن وہ کانفرنس منعقد کر کے مسئلے کو پیچیدہ بنا رہے ہیں، کیونکہ اس سے طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات پر اثر پڑے گا۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ امارات بھی اب قطر میں مذاکرات پر معترض نہیں ہیں، جس کی وجہ سے قطر میں مذاکرات کے آئندہ درو میں پیشرفت کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭