کراچی پولیس نے جعلی مقابلے پھر شروع کردیئے

امت رپورٹ
کراچی پولیس نے جعلی مقابلے پھر شروع کر دیئے۔ نادرن بائی پاس پر اینٹی کار لفٹنگ سیل پولیس کے ہاتھوں مارے گئے پی پی بھٹو گروپ کے رہنما اسد عمرانی کو جعلی مقابلے سے ایک روز قبل منگھو پیر میں واقع اس کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق پولیس نے اسد عمرانی کی اس کے بھائیوں سے بات کرائی تھی اور رہائی کیلئے 15 لاکھ روپے رشوت طلب کی تھی۔ انہیں یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ رقم نہ دینے پر اسد عمرانی کو جعلی مقابلے میں مار دیں گے۔ واضح رہے کہ 16 اکتوبر کو اے سی ایل سی پولیس نے نادرن بائی پاس پر پی پی بھٹو گروپ کے رہنما اسد عمرانی سمیت دو افراد شہزاد عباسی اور اشوک کمار کو ہلاک کیا تھا۔ بعد ازاں ایس ایس پی اینٹی کار لفٹنگ سیل نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ملزمان اغوا برائے تاوان، ڈکیتی اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں ملوث تھے۔ جبکہ اے سی ایل سی کی اس کارروائی پر آئی جی سندھ نے اہلکاروں کیلئے انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم بعد ازاں یہ مقابلہ جعلی نکلا۔ مقتول اسد عمرانی کے بھائی نے منگھو پیر تھانے میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے افسران کیخلاف قتل اور اغوا کا مقدمہ درج کرادیا ہے، جس پر ایڈیشنل آئی جی نے انکوائری کا حکم دیا ہے۔ مقتول اسد عمرانی کے ورثا کا کہنا ہے کہ جعلی پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ مقتول عام انتخابات میں لاڑکانہ کی نشست این اے 200 پر پی پی بھٹو گروپ کے ٹکٹ پر بلاول زرداری کیخلاف کھڑا ہوا تھا۔ اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔
مذکورہ پولیس مقابلے کے حوالے سے اے سی ایل سی پولیس نے میڈیا کو بتایا تھا کہ 16 اکتوبر کو نادرن بائی پاس پر پکٹ لگا کر موجود تھے کہ وہاں سے گزرنے والی ایک کار کو چیکنگ کیلئے روکنا چاہا۔ لیکن کار سواروں نے فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی۔ پولیس نے جوابی فائرنگ کرکے ان کی کار کو روکا۔ تاہم کار سوار تینوں افراد مارے جا چکے تھے۔ کار سے ایک رائفل اور 2 پستول برآمد ہوئے۔ بعدازاں ان کی شناخت شہزاد عباسی، اشوک کمار اور اسد عمرانی کے نام سے ہوئی۔ پولیس کے مطابق ملزم شہزاد عباسی پولیس کو 33 مقدمات میں مطلوب تھا۔ جبکہ مارے جانے والے ملزمان اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی سمیت گاڑیاں چھیننے کے درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے اور پولیس ان کی تلاش میں تھی۔ ملزم اسد عمرانی کے خلاف تھانہ رتو ڈیرو ضلع لاڑکانہ اور ضلع شکارپور کے گائوں ڈکھن کے تھانے میں 3 مقدمات درج تھے۔
ادھر دوسرے روز اسد عمرانی کے ورثا نے ایدھی سرد خانے میں لاش دیکھی تو اس کے جسم پر بدترین تشدد کے نشانات تھے۔ ورثا کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا گیا اور لاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم کرایا گیا۔ اسد عمرانی کے اہل خانہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ کار میں دیگر افراد کے ساتھ جارہا تھا اور پولیس سے مقابلے میں مارا گیا۔ جبکہ اسد عمرانی کو ایک روز قبل گھر سے اٹھایا گیا تھا۔ عدالتی حکم پر منگھو پیر پولیس نے مقدمہ نمبر 440/18 درج کیا اور مقابلہ کرنے والے اہلکاروں پر قتل کی دفعہ 302 اور اغوا کی دفعہ 365 لگائی گئی۔ جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے 3 رکنی کمیٹی ڈی آئی جی ویسٹ خادم حسین رند کی سربراہی میں بنا دی ہے تاکہ اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔
اس حوالے سے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول اسد عمرانی کے بھائیوں نے بتایا کہ پولیس نے تاحال اینٹی کار لفٹنگ سیل کے مقابلہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔ مقتول اسد عمرانی کے بڑے بھائی محمد علی عمرانی کا کہنا تھا کہ 10 بھائیوں میں مقتول اسد عمرانی پانچویں نمبر پر تھا۔ ان کی فیملی کی شکارپور میں آٹھ سو ایکڑ زمین ہے۔ ان کے والد مور خان عمرانی کے نام پر گائوں ہے۔ جبکہ مقتول اسد عمرانی کا شکارپور میں ایک پیٹرول پمپ ہے۔ وہ پی پی بھٹو گروپ کا سرگرم رہنما تھا۔ 2013ء کے الیکشن میں شکارپور سے این اے 207 پر کھڑے ہونے والے امیدوار عنایت عمرانی کا کورنگ امیدوار تھا، جبکہ الیکشن 2018ء میں وہ پی پی بھٹو گروپ کی جانب سے این اے 200 پر بلاول زرداری کے خلاف کھڑا ہوا تھا۔ مقتول بھائی کے 3 بچے ہیں۔ محمد علی عمرانی نے بتایا کہ 15 اکتوبر کی رات8 بجے اسد عمرانی کے ساتھ دوسرا بھائی اکبر عمرانی گھر پر موجود تھا کہ پولیس کی وردیوں اور سادے کپڑے میں ملبوس اہلکاروں نے چھاپہ مارا۔ پولیس موبائل کے ساتھ کاریں بھی تھیں۔ وہ لوگ اسد عمرانی کو ساتھ لے گئے۔ اس واقعہ کے گواہوں میں بھائی اکبر عمرانی اور منگھوپیر میں واقع مون سٹی فیز ون کے دو چوکیدار سراج اور اللہ داد شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اکبر عمرانی نے اطلاع دی تھی کہ اسد عمرانی کو پولیس لے گئی ہے۔ پھر چند گھنٹے بعد کسی اجنبی نمبر سے اسد عمرانی نے فون کرکے بتایا کہ پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ 15 لاکھ روپے تیار رکھنا ورنہ جعلی مقابلے میں مار دیں گے۔ محمد علی عمرانی کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کی رہائی کیلئے مختلف لوگوں سے رابطے شروع کردیئے۔ لیکن دوسرے ہی دن معلوم ہوا کہ اسد عمرانی کو دیگر دو افراد کے ساتھ مار دیا گیا ہے۔ ایدھی سرد خانے میں اس کی لاش وصول کرنے گئے تو اس پر بدترین تشدد کے نشانات تھے۔ دانت ٹوٹے ہوئے تھے، جسم پر تیز دھار آلے کے کٹ لگے تھے اور کرنٹ لگائے جانے کے نشانات بھی تھے۔ تاہم تھانے میں کھڑی گاڑی پر گولیوں کے نشانات نہیں تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر فوری طور پر عدالت سے رجوع کیا، جس پر دوبارہ پوسٹ مارٹم ہوا اور پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ محمد علی عمرانی کا کہنا تھا کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔ واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ مقدمہ اینٹی ٹیرراسٹ کورٹ بھیجا جائے۔ اور مقدمے میں نامزد اینٹی کار لفٹنگ سیل کے افسران چوہدری سلیم، وقاص انور اور شہزاد علی کو نوکری سے برطرف کر کے گرفتار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کی بنائی گئی کمیٹی کی چھان بین سے مطمئن نہیں ہیں۔ جوڈیشنل انکوائری میں ہی اصل حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ مقتول اسد عمرانی کیخلاف ملک بھر میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔ یہ تحقیقات کی جائیں کہ اسد عمرانی کو سیاسی رنجش پر قتل کرایا گیا ہے یا پولیس نے پندرہ لاکھ روپے رشوت نہ دینے پر اس کو ہلاک کیا ہے۔ پولیس اب بھی ان سمیت دیگر بھائیوں اور اہل خانہ کو ہراساں کررہی ہے۔ انہیں کہا جارہا ہے کہ خاموشی سے بیٹھ جائو، ورنہ تم بھی مارے جائو گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment