قادیانیوں نے 80 زبانوں میں قرآن پاک کا تحریف شدہ ترجمہ کیا

احمد خلیل جازم
قادیانی چوہدری خدا بخش عابد نے وفات مسیح پر مجھے قائل کرلیا۔ قادیانیوں کے پاس مسلمانوں کے خلاف یہی واحد ہتھیار ہے، جس سے وہ کسی مسلمان کو قادیانی کر لیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی ہر طرف سے جواب نہ ملنے کی صورت میں مایوس ہوکر قادیانی ہوگیا۔ یہ بات نہیں کہ میں نے فوری طور پر ایسا کیا۔ کئی نشتیں ہوتی رہیں۔ پوری پوری رات بحث مباحثہ کرتے۔ لیکن میرے پاس اپنے علم کے مطابق دلائل نہ ہوتے۔ چنانچہ 2003ء میں جب مرزا مسرور احمد نیا خلیفہ بننے لگا تو میں نے بھی بیعت فارم پُر کردیا، کیونکہ ہر مرزائی پر فرض ہے کہ وہ نئے خلیفہ کی بیعت کرے۔ میں نے لاہور میں قادیانیوں کے معروف علاقے ’ہانڈو گجر‘ میں کرامت اللہ خادم جو اس وقت وہاںکا مربی تھا، اس کی وساطت سے بیعت کی۔ اس کے بعد میرے خلاف مساجد سے خطبات شروع ہوگئے۔ یعنی میرے مرتد ہونے کی باتیں شروع ہوگئیں۔ چونکہ میرا سیاسی پس منظر بھی تھا، اس لیے جو تھوڑا بہت نام کمایا تھا، اب وہ سب مٹی میں مل رہا تھا۔ مجھے گھر والوں کے رویے سے محسوس ہونے لگا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں گھر چھوڑ دوں۔ گھر میں میرے برتن، بستر وغیرہ الگ کر دئیے گئے تھے۔ پھر میرے خاندان یعنی چچا وغیرہ نے میرے والد کو الٹی میٹم دے دیا کہ تمہارا بیٹا چونکہ کافر ہو چکا ہے، اس لیے اس سے قطع تعلق کر لو یا پھر ہمیں چھوڑ دو۔ مولوی فضل ہمارے علاقے میں امام مسجد تھے۔ انہوں نے میرے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔ میرے گھر والوں پر بہت زیادہ پریشر تھا۔ 2004ء میں بڑی عید کے چوتھے روز ایک رات گو گھر گیا تو گھر والے الگ پلاننگ کرکے بیٹھے تھے۔ میں عشا کی نماز قایادنی مرکز میں پڑھ کر نو بجے کے قریب گھر آیا۔ اپنے کمرے میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرے بڑے بھائی مولوی محمد یعقوب کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ تمہیں والد صاحب بلا رہے ہیں۔ وہاں پہنچا تو پھر یہی بات شروع ہوگئی کہ میں قادیانی ہوگیا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ قرآن میں یہ آیات ہیں۔ وفات مسیح پر آپ ان کے رد کی دلیل دے دیں، میں ابھی قایادنیت چھوڑ دیتا ہوں۔ والد صاحب کے کمرے میں شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمے والا قرآن رکھا تھا۔ وہ میں نے اٹھا لیا اور آیات دکھانا شروع کردیں۔ میں والد صاحب کے دائیں جانب بیٹھا تھا۔ میرے سامنے میرا بھائی یعقوب بیٹھا تھا۔ دائیں جانب چھوٹا بھائی صدیق بیٹھا تھا۔ پیچھے میرا بھتیجا شکیل لیٹا ہوا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا چھوٹا بھائی صدیق میرے دائیں سے میرے پیچھے آ گیا۔ میں ابھی انہیں آیات دکھا ہی رہا تھا کہ یکدم میرے بھتیجے شکیل نے چیخ ماری۔ میری چھٹی حس فوراً بیدار ہوگئی۔ میں نے سامنے دیکھا تو اس کا سایہ دیوار پر دکھائی دیا، جس میں اس کا ہاتھ اٹھا ہوا تھا اور اس میں ٹوکا تھا۔ میں نے بے دھیانی میں اپنا دائیاں ہاتھ سر کی جانب اٹھایا تو ٹوکے کا وار میرے دائیں ہاتھ پر لگ کر سر پر آ لگا۔ اگر میں وہ ہاتھ نہ اٹھاتا تو شاید پہلے وار میں ہی میرے سر کے دو ٹکڑے ہو جاتے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کی پلاننگ یہی تھی کہ مجھے بے خیالی میں پہلے وار میں ہی ختم کردیا جائے۔ میرے سامنے بیٹھے بھائی نے میرے ہاتھ سے قرآن کریم لے لیا۔ اس کے بعد دھینگا مشتی شروع ہوگئی۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح میرا کام تمام کردیں۔ میرے سر اور جسم پر درجنوں زخم لگے۔ لیکن وہ کارگر اس لیے نہ ہوسکے کہ میں نے مزاحمت جاری رکھی۔ کبھی میں تکیہ آگے کرکے خود کو بچاتا، کبھی میز اور کبھی کوئی برتن سامنے کردیتا۔ دوسرے میں زور میں ان سے زیادہ تھا۔ پہلے زخم کے علاوہ کوئی کاری زخم نہ لگا۔ اسی دھینگا مشتی میں بھائی کے ہاتھ سے میں نے ٹوکا چھین لیا اور انہیں کہا کہ اس طرح نہ کرو۔ مجھے کسی عالم دین کے پاس لے چلو۔ اگر وہ مجھے جھوٹا ثابت کردے تو جو آپ کہیں میں ماننے کو تیار ہوں۔ وہ مسلسل مجھ پر تشدد کر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر ٹوکا میرے ہاتھ میں رہا تو میں بھی کسی کو مار دوں گا۔ چنانچہ میں وہاں سے باہر نکلا اور ٹوکے کو زور سے ہمسایوں کے گھر کی طرف چھت پر اچھال دیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اب ٹوکا اس کے ہاتھ میں نہیں تو انہوں نے پھر مارنا شروع کردیا۔ اس دوران میری ریڑھ کی ہڈی پر اور پائوں پر چوٹ آئی، جس کی وجہ سے میں اب بھی لنگڑاکر چلتا ہوں۔ انہوں نے میرے گلے میں چادر ڈال کر مجھے باہر گلی میں گھسیٹنا شروع کر دیا۔ کسی نے چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے مجھے جان سے مارنے سے گریز کیا کہ لوگوں نے مجھ پر تشدد ہوتے دیکھ لیا تھا۔ یہ کام چار گھنٹے جاری رہا۔ آپ یقین کریں کہ میں کئی برس اس صدمے سے باہر نہیں آسکا۔
رات دو بجے کے قریب میرے ایک دوست کے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے، انہوں نے آکر مجھے بچایا۔ وہ لوگ بہت طاقتور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس لڑکے کو یہاں سے لے کر جائیں گے۔ وہ مجھے اپنے دوست کے گھر لے آئے، اور میں نے وہاں سے نکلنے کی ٹھانی۔ چنانچہ انہوں نے مجھے وہاں سے نکال دیا۔ وہاں سے نکل کر میں لاری اڈے پہنچا۔ پہلے فیصل آباد جانے کا سوچا کہ ننھال چلا جائوں۔ پھر سوچا کہ وہاں بھی اطلاع پہنچ چکی ہوگی۔ چنانچہ وہاں سے سیدھا ربوہ چلا گیا۔ وہاں میری ملاقات میاں خورشید احمد مقامی امیر پاکستان سے ہوئی۔ وہاں سے مجھے کرامت صاحب لاہور اقبال ٹائون لے آئے اور اسی تشدد کی وجہ سے میں نے زور و شور سے قادیانیت کی تبلیغ شروع کردی۔ میں نے 2006ء میں 14 لوگوں کو بیعت کرائی۔ اقبال ٹائوں میں سات برس تک رہا۔ وہاں میں ناظم اصلاح و اشاعت، ناظم تربیت نو مباہن وغیرہ کے عہدوں پرکام کرتا رہا۔ میں پہلے اردو بازار میں پرنٹنگ پریس کا کام کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اسکول بھی چلاتا تھا۔ وہ دونوں کام ختم ہوگئے۔ چنانچہ میں نے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیں اور ساتھ ساتھ سیلز مین بھی بن گیا۔ یوں زندگی کی گاڑی چلنے لگی۔ میں ہر برس کچھ نہ کچھ لوگوں کو بیعت کراتا رہا۔ میں نے پچاس سے زیادہ لوگوں کو بیعت کرائیں۔ یہ تو صرف وہ ہیں جو میں نے ذاتی حیثیت میں کرائیں۔ باقی کچھ لوگ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے مجھ سے بیعت لے لیتے تاکہ جماعت میں ان کی کارکردگی جمی رہے۔ یہ سارا سلسلہ 2009-10ء تک چلتا رہا‘‘۔
اس سوال پر کہ آپ کو جماعت احمدیہ والے ربوہ یا قادیان لے کرگئے تو حافظ ابراہیم کا کہنا تھا ’’ربوہ تو ہر ماہ جاتے تھے۔ ہر ماہ کی پہلی اتوار کو ربوہ دارالذکر قافلہ لے کر جاتے۔ جو نئے بیعت والے ہوتے ان کو ویگن میں بھر کر لے جاتے۔ دارالضیافت میں جاکر ٹھہرتے۔ نئے لوگوں کی تربیت ہوتی۔ وہاں نمائش دیکھتے۔ نمائش میں 68 زبانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا گیا ہے، وہ دیکھا جاتا۔ اب تو سنا ہے کہ 80 کے قریب یہ ترجمہ پہنچ گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ یہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور ہر ملک میں ہر زبان میں وہ قرآن پیش کر رہے ہیں جس کی تفسیر اپنی مرضی سے کی جارہی ہے۔ جب بھی ربوہ جاتے، ہر بار قرآن کی نئی آیت کی تفسیر نئے انداز سے پیش کی جاتی۔ نئی حدیث بتائی جاتی۔ زیادہ تر ایسی آیات بتاتے کہ نعوذ باللہ ہمیشہ رسول آتے رہیں گے۔ یہ اس لیے کہ لوگوں کو یقین ہو کہ مرزا قادیانی نعوذ باللہ رسول ہے۔ یہ پہلے مرزا کو مہدی بتاتے ہیں۔ جب بندے کو گھیر لیتے ہیں تو پھر آیات اور احادیث سے اسے اس کی رسالت پر قائل کرتے ہیں۔ اسی طرح نئے قادیانی ہونے والوں کو دکھایا جاتا ہے کہ دیکھیں ہم لوگ قرآن کی کتنی خدمت کر رہے ہیں۔ اس سے وہ بہت متاثرہوتے اوران کا قادیانیت پر ایمان مزید مضبوط ہوتا۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دین کا کام جس طرح مرزائی جماعت کر رہی ہے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ دوسری طرف معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیں کہ ہم خود کو دیکھیں تو وہ صرف اور صرف اس کے دفاع میں تشدد پر لوگوں کو ابھار رہے ہیں۔ حالانکہ یہ تما م کام مسلمانوں کے کرنے والے ہیں۔ مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ تحقیق اور تربیت پر زور دیں۔ اسلام کی تبلیغ عام کریں۔ مجھے بارہا کہا گیا کہ اپنا پاسپورٹ بنوائو، تاکہ تمہیں قادیان لے کر جائیں۔ لیکن خدا خبر کیوں مجھے قادیان جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ چنانچہ نہ پاسپورٹ بن سکا اور نہ ہی مجھے قادیان لے جایا گیا۔ ربوہ میں عام آدمی کا داخلہ ممکن نہیں۔ ان کے مراکز میں وہ شخص داخل ہوسکتا ہے جس کے پاس تجنید کارڈ ہو۔ یہ کارڈ ہر علاقے کی جماعت کا صدر ایشو کرتا ہے۔ وہ دکھا کر آپ ربوہ میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ اب تو سیکورٹی اتنی سخت ہوگئی ہے کہ ربوہ میں جو بھی جاتا ہے وہ اپنے مقامی صدر کا خط لے کر جاتا ہے کہ یہ وہاں کس لیے جارہا ہے اور کتنے دن ٹھہرے گا۔ یہ سب کچھ 2010ء کے بعد لاہور میں جو فسادات ہوئے، اس کے تناظر میں ہوا‘‘۔ حافظ ابراہیم نے یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ وہ قادیانیوں کے چنگل سے کیسے باہر آیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment