ایک شخص بہت قرض دار ہوگیا۔ ہر چند اس نے قرضے ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن ادا نہ ہو سکا۔ قرض خواہ اس کی عزت و آبرو کے خواہاں ہوئے، اس کو بہت پریشان کیا۔ جب وہ جان سے عاجز آیا اور کہیں ٹھکانا نہ لگا۔ آخر کار اپنے ایک دوست کے پاس گیا، وہ محبت اور خاطر تواضع سے پیش آیا اور حال پوچھنے لگا کہ ان دنوں کیسی گزر رہی ہے؟
کہا: کیا کہوں، خدا کا شکر ہے۔ مگر آج کل چار سو درہم قرضے کی بہت فکر ہے کہ قرض خواہ رات دن چین نہیں لینے دیتے، جان سے عاجز ہوکر تمہیں دوست جان کر آیا ہوں۔ دوست غیرت کھا کے اندر چلا گیا۔ جلدی سے چار سو درہم لے آیا، کہا جائیے اور قرض خواہوں سے اپنا پیچھا چھڑائیے۔
دوست خوشی خوشی چلا گیا۔ یہ آدمی گھر میں جاکر زار زار رونے لگا۔ اس کی عورت نے کہا خیر ہے خدا کا شکر ادا کرو کہ ایک دلی دوست اور نیک آدمی کی حاجت تم سے روا ہوئی۔ کہا اے بی بی غم درہم طالب دنیا کو بے قرار کرتا ہے، بلکہ میں تو اس واسطے روتا ہوں کہ میں اس دوست کے حال سے ایسا کیوں غافل رہا، جو اس بلا میں مبتلا ہوکر حاجت مندوں اور فقیروں کی طرح میرے پاس آیا، تب میں نے اس کو مصیبت سے چھڑایا۔ پس کچھ حق دوستی ادا نہ ہوا، بلکہ محتاجوں کا سا دینا ہوا۔ لہٰذا اسی غفلت کی زندگی پر افسوس ہے کہ میں چین اڑاؤں اور دوست بے چین رہے۔
درحقیقت سچے اور صادق دوست وہ ہیں کہ ہر حال میں خیال دوست رکھتے ہیں۔ حتی المقدور دوست کو دکھ درد کی ہوا نہیں لگنے دیتے اور پھر بدلے کی امید بھی نہیں رکھتے کہ یہ تو سوداگری ہے نہ کہ دوستی۔ بلکہ ہر ایک نیکی جو بھی کی جائے اس میں خدا تعالیٰ کی رضا مقصود ہونی چاہیے نہ کہ دنیا کا بدلہ۔ جس کسی سے بھی نیکی کی جائے اس سے مطمع دنیوی کچھ نہ ہو، بلکہ صرف اس غرض سے اس سے نیکی و محبت ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہے اور خدا کی مخلوق ہے، یہ دوستی بھی خدا کیلئے ہوگی اور حسن سلوک کا بھی ثواب ملے گا۔ (گلدستہ واقعات)
٭٭٭٭٭