جرمن ڈاکٹر کا قبول اسلام

ضیاء الرحمٰن چترالی
باہور سے حامی بھرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اس بار گفتگو کا آغاز میں خود کروں گا اور گفتگو کے دوران پہلا وار بھی میرا ہی ہوگا۔ اپنی تمام ملاقاتوں کا تذکرہ کر کے پڑھنے والوں کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پانچویں اور چھٹی ملاقات کے دوران میں بھی بوڑھے مسلمان کا پلڑا بھاری تھا۔ میں برملا اعتراف کرتا ہوں کہ ان سے تمام نشستوں کے دوران میں خود کو محاصرے میں سمجھتا تھا۔
باہور کے والد سے ملاقات سے قبل پوری تیاری کرتا، لیکن سامنا ہونے پر ان کی صداقت، ایمانداری و سچائی پر مبنی تحلیل، تجزیئے اور توضیحات مجھے روحانی طور پر شدید جھٹکا دیتے تھے، میری حالت یہ ہوتی کہ جیسے ایک بچہ استاد کے سامنے بیٹھ کر اس سے کچھ سیکھ رہا ہو۔ دوسری جانب جرمن ادارہ برائے عیسائی تبلیغ کے کارکنان پوری طرح سے مجھ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انہوں نے پہلے ہی دن میرے باہور کے گھر جانے کو بھی نوٹ کیا تھا۔
آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ میرے ٹیم ورکرز میرے سامنے مزاحمت کرنے لگے۔ انہوں نے مجھے وارننگ دی کہ آئندہ میں باہور کے گھر نہ جاؤں، دن بدن مجھ پر سختی ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جرمنی سے مجھے حکم ملا کہ میں باہور کے گھر نہ جاؤں اور پھر مجھے صومالیہ کے اس چھوٹے سے مقام سے دارالحکومت موغادیشو ٹرانسفر کر دیا گیا۔
جرمن ادارے کے کارکنوں نے باہور کے گھر والوں پر اس مقام سے کہیں اور منتقل ہونے کیلئے دباؤ ڈالا تھا۔ جرمن ادارے نے باہور سے میرے تعلقات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن وہ میرے دل سے صومالیہ اور یہاں کے لوگوں کی محبت ختم نہ کر سکے۔ بہر کیف کچھ دن بعد میں اکثر رات کے پچھلے پہر چپکے سے ٹیکسی میں سوار ہو کر باہور کے گھر چلا جاتا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔
میری جگہ تعینات نئی ٹیم کے سربراہ کو اس بات کی خبر ہو گئی اور پھر اس نے علاقے کے ایک سیکورٹی افسر کو میرے پیچھے لگا دیا، جو کہ کئی دنوں تک مجھے منع کرتا رہا۔ آخر کار میں اس سیکورٹی اہلکار کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد ازاں مجھے روکنے میں ناکامی پر سیکورٹی افسر نے باہور کو گرفتار کر کے قید کر لیا۔ جس کا مجھے بہت افسوس ہوا اور پولیس کے اس رویے پر میں بہت رویا۔
اس کے بعد میں باہور کے والد سے مزید ملاقات نہیں کر سکتا تھا اور اسی بنا پر زیادہ مایوس ہو گیا تھا۔ میرا واحد ہدف یہی تھا کہ ان سے شروع کی جانے والی بحث کو منطقی انجام تک پہنچا دوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بوڑھے کی باتوں سے میرے ذہن میں برپا ہونے والے طوفان کے خاتمے کیلئے ان سے مزید ملاقاتیں ضروری تھیں۔ اسی عرصے کے دوران مجھے میرے مرکزی دفتر واقع جرمنی سے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے سے حکم دیا گیا کہ ضروری ڈیوٹی کے پیش نظر میں فوری طور پر کینیا پہنچ جاؤں۔
کینیا جانے سے قبل سیکورٹی افسر سے یہ کہہ کر باہور کے علاقے میں چلا آیا کہ میری بعض دستاویزات وہاں رہ گئی ہیں۔ یہاں آتے ہی سیدھا باہور کے گھر چلا گیا، اس بار ان کے گھر میں زیادہ خوشیاں دیکھنے کو ملیں۔ باہور کے والد نے بتایا کہ رمضان کا مہینہ شروع ہے، جس میں دین اسلام کا تیسرا اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے۔ صبح ہونے سے قبل میں نے ان کے ساتھ سحری کر لی اور پھر اذانوں کے بعد سبھی لوگوں کو مسجد کی جانب جاتے ہوئے دیکھا، پورا دن باہور کے والد کے ساتھ گزارا اور ان کے دینی شعائر کے احترام کی بنا پر میں بھی پورا دن روزے سے رہا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment