مبارک ویلیج کےباشندوں نے بائیکو کو ماحوالیاتی خطرہ قرار دےدیا

امت رپورٹ
کراچی کے ساحلی تفریحی پوائنٹ مبارک ویلیج کے باشندوں نے حب میں واقع بائیکو پیٹرولیم کمپنی کی آئل ریفائنری کو ماحولیاتی خطرہ قرار دیدیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو مبارک ویلیج کی جانب بہہ کر آنے والے تیل سے دیگر 6 ساحلی آبادیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ مقامی باشندوں کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پانچ برس پہلے بائیکو کی آئل ریفائنری سے تیل بہہ کر کراچی کی ساحلی پٹی پر آیا تھا۔ دوسری جانب متاثرہ علاقوں کے ماہی گیروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ تیل کی آلودگی سے کئی ناٹیکل میل کے علاقے میں مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی معدومی کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ادھر محکمہ ماحولیات بلوچستان، پیٹرولیم کمپنی کے دفاع میں سرگرم ہے اور واقعے کا سارا ملبہ سندھ کے محکمہ ماحولیات پر ڈال رہا ہے۔
مقامی ذرائع کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اصرار تھا کہ مذکورہ تیل بائیکو آئل ریفائنری ہی کی جانب سے آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’چرنا‘‘ کے قریب سمندر میں قائم پلیٹ فارم، جہاں تیل بردار بحری جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں، وہاں سے پائپ کے ذریعے جہازوں پر لدا کروڈ آئل، ریفائنری کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ پائپ اکثر لیک کر جاتا ہے اور شگاف اگر زیادہ ہو تو تیل بہہ کر کراچی کی ساحلی پٹی تک آجاتا ہے۔ جمعرات کو بھی ایک جہاز سے تیل بائیکو ریفائنری تک منتقل کیا جارہا تھا۔ دوسری جانب بلوچستان حکومت، بائیکو ریفائنری کو کلیئر کرانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ مبارک ولیج پر بلوچستان محکمہ موحولیات کے افسران بائیکو کو بچانے کیلئے مختلف بیانات دے رہے تھے۔ جبکہ سندھ حکومت کا کوئی ذمہ دار متاثرہ ساحلی علاقوں میں جمعہ کی سہ پہر تک موجود نہیں تھا۔
واضح رہے کہ جمعرات کو مبارک ولیج ساحل پر تارکول نما تیل آنا شروع ہوگیا تھا۔ لنگر انداز لانچوں کے اطراف کالا تیل دیکھ کر ماہی گیروں میں تشویش پھیل گئی تھی۔ جوں جوں ہائی واٹر (پانی ساحل کی جانب آنا) ہونے لگا، اس دوران کالا تیل ساحل کی ریت پر بھی آتا گیا۔ ماہی گیر جب کنارے پر پہنچے تو لوگوں کو بتایا کہ سمندر میں مغرب کی جانب چرنا کے تفریحی مقام اور بائیکو ریفائنری کی جانب سے یہ تیل آرہا ہے۔ ’’امت‘‘ نے صورتحال جاننے کیلئے ترجمان پاک بحریہ سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ جاننے کیلئے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو ایک تیل بردار جہاز سے بائیکو ریفائنری کو فیولنگ کی جا رہی تھی کہ پائپ لائن میں لیکج ہوگئی۔ جب تک معاملے پر قابو پایا جاتا، ہزاروں گیلن تیل بہہ چکا تھا اور ہوا کے رخ پر مبارک ولیج تک پہنچ گیا۔
’’امت‘‘ نے ماڑی پور تھانے جاکر معلومات کیں تو ڈیوٹی افسر ریاض کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او صاحب علاقے میں گشت پر ہیں۔ ان کو غیر سرکاری طور پر معلوم ہوا تھا کہ مبارک ویلیج پر تیل آرہا ہے۔ اس کے بعد ’’امت‘‘ کی ٹیم نے مبارک ولیج جاکر صورتحال معلوم کی۔ وہاں چند ماہی گیر جمع تھے۔ اس سے پہلے کہ ان سے معلومات لی جاتیں، وہاں کچھ افراد آگئے، جنہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق محکمہ ماحولیات بلوچستان سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تحقیقات کرلی ہیں۔ سندھ کی سمندری حدود میں موجود کسی جہاز نے اپنے تیل کے ٹینک صاف کرکے فضلہ بہایا ہے۔ اس کی روک تھام سندھ حکومت کے محکمہ ماحولیات کا کام ہے جو اس نے نہیں کیا۔ محکمہ ماحولیات بلوچستان کے افسر کیپٹن (ر) محمد عمر کا کہنا تھا کہ جمعرات کی صبح انہیں اطلاع ملی تھی۔ انہوں نے سارے معاملے پر چھان بین کی ہے۔ اس واقعے میں بلوچستان کی حکومت اور بائیکو ریفائنری کلیئر ہے۔ مذکورہ ٹیم میں شامل ڈپٹی ڈائریکٹر محمد خان کا کہنا تھا کہ جمعرات کی صبح سے ان کی ٹیم چھان بین کررہی ہے۔ اس دوران بائیکو ریفائنری کے کنکشن اور فیولنگ اسٹینڈ کے اطراف تمام والو (VALVE) چیک کئے گئے۔ سارا سسٹم کلیئر ہے۔
’’امت‘‘ نے مبارک ویلیج کے رہائشی صابر سعید سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دس، پندرہ سال قبل جب حب کے ساحلی علاقے میں بائیکو ریفائنری بنی تھی تو اس دوران کہا گیا تھا کہ چرنا کے تفریحی مقام کے سامنے سمندر میں فیولنگ اسٹیشن تک جو لائن بچھائی گئی ہے، اس کو انڈر واٹر کیمروں سے مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود 5 سال قبل بھی دوران فیولنگ، لیکج ہوئی تھی۔ اس دوران بھی بلوچستان حکومت نے بائیکو پیٹرولیم کمپنی کو سپورٹ کیا تھا اور اب بھی کر رہی ہے۔ وہاں موجود شکور کا کہنا تھا کہ دیگر 6 آبادیوں سہنرا پوائنٹ، منجھار گوٹھ، سینڈز پٹ، بٹگوڈی، عبدالرحمان گوٹھ اور نتھیا گلی کے ساحل پر بھی گاڑھا سیال بہہ آرہا ہے۔ واضح رہے کہ مبارک ولیج کی سمندری حدود میں کیکڑے، مچھلی کی مہنگی قسم لیسٹر LASTER)) اور اچھی نسل کے جھینگے پکڑے جاتے ہیں۔ علاقہ مکین ماہی گیر جبار کا کہنا تھا کہ مبارک ویلیج پر روزانہ ایک ہزار افراد جبکہ ہفتہ اور اتوار کو کئی ہزار افراد تفریح کرنے آتے ہیں۔
’’امت‘‘ نے فشر کوآپریٹو سوسائٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقات کر رہے ہیں۔ ابھی کوئی بات واضح نہیں ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment