عمران خان
ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کراچی نے جوڑیا بازار میں اسمگلروں کے خلاف ناکام چھاپے کی واقعاتی رپورٹ مکمل کرکے ڈائریکٹر جنرل اسلام آباد ہیڈ کوارٹر کو ارسال کردی ہے۔ رپورٹ میں کارروائی کیلئے کسٹم اہلکاروں کے ساتھ جانے والی رینجرز اور پولیس کی ٹیموں کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس کراچی فیاض انور کا دعویٰ ہے کہ پولیس اور رینجرز نے کارروائی کے دوران خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا اور عین اس وقت کارروائی سے علیحدہ ہوگئے جب اسمگلروں نے کسٹم اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کی اور اسمگلروں کے ایما پر آئے مظاہرین نے کسٹم ٹیم پر پتھرائو شروع کیا، جس کے نتیجے میں کسٹم کے اہلکا ر براہ راست اسمگلروں کے نشانے پر آگئے تھے اور مشکل سے جان بچا کر جوڑیا بازار سے واپس آئے۔
گزشتہ ہفتے 19 اور 20 اکتوبر کی درمیانی شب ڈائریکٹو ریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کی ٹیم نے جوڑیا بازار کے علائوالدین اور حاجی صدیق کاکڑ کے گوداموں پر کروڑوں مالیت کے اسمگل شدہ سامان کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارا تھا۔ اس کے دوران جوڑیا بازار کے تاجروں کی جانب سے شدید مزاحمت کی گئی تھی اور کسٹم اہلکاروں پر پتھرائو بھی کیا گیا۔ جبکہ کسٹم کی جانب سے تحویل میں لئے جانے والے سامان سے بھرے ٹرک بھی چھڑا لئے گئے تھے۔ اسی کارروائی کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ اس دوران بعض کسٹم اہلکاروں نے جوڑیا بازار کے گوداموں کے دفاتر سے لاکھوں روپے کی رقم کی لوٹ مار کی تھی اور تاجروں کی شکایت اور احتجاج کے بعد لوٹ مار کرنے والے کسٹم انٹیلی جنس افسر عرفان غنی کے خلاف کارروائی کرکے رقم واپس دلائی گئی۔ ان اطلاعات پر ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس اور ہیڈ کوارٹر کی جانب سے نوٹس لیا گیا اور ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس سے رپورٹ طلب کی گئی تھی جس پر دو روز قبل ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس فیاض انور کی جانب سے واقعاتی رپورٹ تیار کرکے ہیڈ کوارٹر ارسال کی گئی ہے۔
ذرائع سے موصول ہونے والے دستاویزات کے مطابق ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ سٹی کورٹ کے قریب جوڑیا بازار میں کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم نے قانون کے مطابق اسمگلنگ کے سامان کی موجودگی کی اطلاع پر چھاپہ مارنے کیلئے ایک ہفتہ قبل تیاری کرلی تھی اور اس کیلئے پاکستان رینجرز ہیڈ کوارٹر کو ایک لیٹر ارسال کیا گیا تھا تاکہ کسٹم کی چھاپہ مار ٹیم کو رینجرز کی نفری فراہم کی جاسکے اور اس دوران گوداموں کی کڑی مانیٹرنگ کی جاتی رہی۔ تاکہ اسمگلر اپنا سامان دوسری جگہ منتقل نہ کرسکیں۔ رپورٹ کے مطابق جب کسٹم افسران رینجرز کی جانب سے نفری ملنے کا انتظار کر رہے تھے تو اسی دوران 18 اکتوبر کو اطلاع موصول ہوئی کہ اسمگلر سامان کو گوداموں سے منتقل کرنے کی تیاری کررہے ہیں جس پر ہنگامی بنیادوں پر ایک چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی گئی اور ایک بار پھر رینجرز ہیڈ کوارٹرز کو اسی روز ہنگامی بنیادوں پر نفری کی فراہمی کیلئے خط لکھا گیا جس کے بعد مقامی تھانے کی پولیس اور رینجرز کی نفری ساتھ لے کر کسٹم اہلکار جوڑیا بازار کے مذکورہ گودام پر پہنچے۔ سامان میں بھارتی گٹکا، غیر ملکی سیگریٹ اور دیگر سامان شامل تھا۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ یہ مقام ایسا تھا کہ یہاں پر تمام سامان ایک ساتھ قبضے میں لینا اور سیل کرنا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ سے کسٹم کی ٹیم نے پانچ ٹرک تیار کرکے اسے ڈائریکٹوریٹ کسٹم انٹیلی جنس کی حدود میں پہنچانے کی کوشش کی۔ تاہم اسی دوران اسمگلر بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے درجنوں دیگر افراد کو اکسا کر مظاہرہ کیا جس کے بعد ان شرپسندوں کی جانب سے نہ صرف کسٹم اہلکاروں پر براہ راست فائرنگ کی گئی بلکہ پتھرائو بھی شروع کردیا گیا تھا۔ تاہم جیسے ہی صورتحال نے ناخوشگوار موڑ اختیار کیا کسٹم ٹیم کے ساتھ چھاپے پر جانے والے رینجرز اور پولیس کے اہلکارخاموش تماشائی بن گئے اور انہوں نے خود سے معاملے کو علیحدہ کرلیا تھا۔ اس صورتحال کی وجہ سے کسٹم کے اہلکار براہ راست اسمگلروں اور شرپسندوں کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کے نشانے پر آگئے تھے۔ اسی دوران کسٹم ٹیم کی ایک گاڑی کے شیشے بھی ٹوٹ گئے تھے اور اس کی باڈی کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران اسمگلر کروڑوں روپے کے سامان سے بھرے تین ٹرک چھڑا کر لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور کسٹم اہلکار بمشکل اپنی جان بچا کر دو ٹرکوں کا سامان ڈائریکٹو ریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس کراچی کے دفتر لا سکے۔ جس کی مالیت 3کروڑ کے لگ بھگ ہے اور سامان تحویل میں لئے جانے کے بعد اسمگلنگ کے اس کیس پر ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم انٹیلی جنس میں مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ بعد ازاں اس واقعہ کی اطلاع جوڑیا بازار کے متعلقہ تھانے کھارادر پولیس اسٹیشن میں تحریری طور پر جمع کروائی گئی اور جلد ہی ان شرپسندوں اور اسمگلروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا جائے گا۔
ڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس فیاض انور نے اپنی رپورٹ میں اعلیٰ حکام کو مزید آگاہ کیا ہے کہ اس کارروائی میں نہ تو کسٹم اہلکاروں نے پرائیویٹ افراد کو استعمال کیا اور نہ ہی جوڑیا بازار کے گوداموں سے لوٹ مار کی گئی تھی۔ بلکہ اس حوالے سے کسٹم انٹیلی جنس کی ٹیم پر لگنے والے الزامات اور ان سے منسلک وڈیوز کی حقیقت یہ تھی کہ 27 لاکھ روپے کی رقم قبضے میں لئے گئے سامان کے ساتھ ہی لائی گئی تھی، جسے سامان سے علیحدہ کرکے گنتی کی گئی اور اس کیلئے بطور شہادت ویڈیو بھی بنائی گئی۔ تاہم بعض تصاویر او ر وڈیوز کو بے بنیاد الزامات کے ساتھ منسلک کرکے پھیلایا گیا۔
٭٭٭٭٭