امریکی سائنسدان جوڑا ہوا سے پانی تیار کررہا ہے

سدھارتھ شری واستو
کیلی فورنیا کے ایک باہمت جوڑے نے ہوا سے پانی کشید کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے اور اس کے بڑے پلانٹس کامیابی سے اعلیٰ پیمانے پر تیار کرلئے ہیں، جنہیں ایسے افریقی اور ایشیائی ممالک میں نصب کئے جانے کی پلاننگ کی گئی ہے جہاں صاف پانی کی کمی ہے اور بالخصوص پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی جوڑے ڈیوڈ ہرٹز اور لیورو ڈیوس نے تجرباتی طور پر ہوا سے پانی کی کشید کا تجربہ ایک سال قبل کامیابی سے کیا تھا جس کے بعد ان دونوں میاں بیوی نے بڑے پیمانے پر ہوا سے پانی کی کشید کیلئے بحری جہازوں کے کنٹینرز سمیت خالی گتوں اور لکڑی کی پلائی کی مدد سے ایک پلانٹ بنا لیا، جس میں گرمی کی مدد سے ہوا کے بخارات کو صاف اور مقطر پانی میں تبدیل کرلیا اور اس کشید شدہ پانی میں معدنیات ملا کر اس کو خالص پانی میں تبدیل کرلیا۔ امریکی جوڑے نے ہوا سے پانی کشید کرنے والی مشین کا نام اسکائی واٹر 300 رکھا ہے، جو اس وقت روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لیٹر پانی ہوا سے کشید کرکے جمع کر رہی ہے اور اس ضمن میں ایک لیٹر پانی کی لاگت صرف دو روپے ہے۔ یہاں تیار کیا جانے والا یا ہوا سے کشید پانی علاقے کے رہائشی امریکیوں میں فی الحال مفت تقسیم کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر خطوں میں پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ایسی مشینوں کی تیاری کیلئے اقوام متحدہ اور امریکی این جی اوز کے تعاون کا انتظار ہے۔ ماہر آب اور کنکٹی کیٹ یونیورسٹی کے امریکی پروفیسر میتھیو اسٹائبر کہتے ہیں کہ انہوں نے اس عظیم ایجاد کے کام کا طریقہ کار دیکھا ہے، جس کے تحت ڈیوڈ اور ان کی اہلیہ لیوروڈ کی بنائی مشین میں نصب لکڑی کے تختوں کو گرمی دے کر حرارت اور نمی پیدا کی جاتی ہے اور دبائو کی شکل میں آبی بخارات کو کنٹینرز میں ٹھنڈا کرکے پانی بنا کر جمع کرلیا جاتا ہے۔ پروفیسر میتھیو کا استدلال ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بنانا اور نصب کرنا بہت آسان ہے اور اس سے دنیا میں پانی کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اپنی ایجاد کو اس امریکی جوڑے نے ایک مقابلے میں متعارف کرایا تھا، جہاں ان کی شرکت بھی بظاہر نظر نہیں آرہی تھی۔ کیونکہ 27 ممالک سے تعلق رکھنے والی 98 ٹیموں میں سے صرف شارٹ لسٹ پانچ تحقیقی ٹیموں کو اس مقابلہ کیلئے ’’ایکسپرائز کمیٹی‘‘ کے منتظمین نے فائنل مقابلے میں بلوایا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ایک ٹیم اس مقابلہ سے دستبرداری ہوگئی جس پر ڈیوڈ اور لیوڈور کو اس مقابلہ میں شرکت کا پروانہ دیا گیا اور انہوں نے اپنی سادہ ٹیکنالوجی/ ایجاد کی بنا پر یہ عالمی مقابلہ جیت لیا اور ہوا سے بخارات کشید کرکے مقطر پانی کے حصول کے اس طریقہ کارکو پیٹنٹ (یعنی سند حق ایجاد حاصل کرنا) کروانے کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم عوامی استعمال کیلئے اس ٹیکنالوجی کو افریقہ اور آبی مسائل سے دوچار ممالک اور خطوں میں عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے استعمال کیا جائے گا۔ امریکی جوڑے کی اس عظیم ایجاد اور کاوش کا اعتراف کرتے ہوئے عالمی ادارے ’’ایکسپرائز کمیٹی‘‘ کی جانب سے پندرہ لاکھ ڈالرز کا انعام دیا گیا ہے اور ان کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ پینے کے پانی کی کمی کا شکار ممالک میں اپنے جدید نظام کو پلانٹس کی شکل میں نصب کریں، تاکہ افریقی سمیت قحط سالی کا شکار دیگر خطوں میں پانی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ ادھر امریکی میاں بیوی ڈیوڈاورلیوروڈ نے بتایا ہے کہ وہ روزانہ اپنے ایک پلانٹ کی مدد سے 2 ہزار لیٹرز سے زیادہ پانی کشید کر رہے ہیں اور اس پانی کو اپنے پڑوسیوں اور اہل علاقہ کو بطور تحفہ پیش کر رہے ہیں، جس سے انہیں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی ہے اور کئی کمپنیوں اور اداروں نے دونوں میاں بیوی سے رابطہ کرکے اس ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں پھیلانے کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ ایک سال قبل امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ڈیوڈ ہرٹز کے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ وہ پانی کی کمی کے شکار ممالک کے باشندوں کیلئے کچھ بڑھ کر کریں تو انہوں نے بحری جہازوں سے نکالی جانے والی اشیا اور کنٹینرز کی مدد سے اپنے گھر کی چھت پر ایک گھریلو پلانٹ لگایا اور گرمی کی مدد سے ہوا میں موجود نمی کو کشید کرکے پانی میں تبدیل کیا اور اس کو فلٹرز سے مزید صاف کرلیا اور بوتلوں میں بھر کر اس کا کیمیائی/ لیبارٹری ٹیسٹ کروایا، جس میں یہ پانی مقطر اور صحت بخش ٹھہرا۔ اس کامیابی کو ڈیوڈ اور ان کی زوجہ لیوروڈ نے بڑے پیمانے پر پھیلانے اور انسانیت کیلئے نعمت بنانے کی ٹھانی اور بڑے سائز کے دو مقطر پلانٹس کی تیاری مکمل کی اور اس کو عالمی ادارے ’’ایکسپرائز کمیٹی‘‘ کے روبرو پیش کیا جہاں مزید پانچ افراد/ سائنسی ماہرین نے بھی اپنے اپنے پلانٹس کی کامیاب تجرباتی اسکیمیں اور مہارتیں پیش کیں لیکن ان تمام ٹیموں کی جانچ کے بعد پانی کی مقدار اور آسان سہل طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے ان دونوں میاں بیوی کو پندرہ لاکھ ڈالرز کا انعام دیا گیا، جس پر دونوں میاں بیوی پھولے نہ سمائے ہیں۔ واضح رہے کہ ایکسپرائز کمیٹی کی جانب سے ہر ایونٹ پر بنی نوع انسان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والے ماہرین اور موجد حضرات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ واضح کیا جاتا ہے کہ تحقیق پر ابھارنے والے عالمی ادارے نے پانچ سال قبل سائنس دانوں اور محقق حضرات کو دعوت دی تھی کہ وہ دنیا بھر میں پانی کی کمی والے علاقوں میں پانی کی سستی اور آسان فراہمی کیلئے تجربات کریں اور پلانٹس بنائیں۔ امریکی جریدے یو ایس اے ٹوڈے نے انکشاف کیا ہے کہ دیگر ٹیموں کو شکست والے ڈیوڈ اور لیوڈور کو مشین کی تیاری اور مقابلوں میں شرکت کیلئیاپنا مکان بھی بینک کوگروی رکھنا پڑا تھا لیکن انعام کی رقم ملنے کے بعد ان کیلئے مکان کو واگزار کروانا آسان ہوگیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment