وجیہ احمد صدیقی
پاکستان چار سال بعد 2022ء میں 75 ویں یوم آزادی پر اپنا پہلا خلا باز خلا میں بھیجے گا۔ خلائی تحقیق کے پاکستانی ادارے سپارکو کے ذرائع کے مطابق پاکستانی خلاباز کا تعلق افواج پاکستان سے ہوگا۔ تاحال ابھی کسی کا سلیکشن نہیں ہوا ہے۔ ذرائع کے بقول خلائی سفر کیلئے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی تربیت کیلئے موزوں ترین فرد پاک فضائیہ کا پائلٹ ہی ہو سکتا ہے۔ خلاباز سمیت اس مشن سے جڑے تمام افراد کی تربیت چین میں ہوگی، جبکہ پروجیکٹ کے اخراجات کا تعین بھی چین کے ساتھ مذاکرات میں کیا جائے گا کہ اس منصوبے میں پاکستان کی کتنی رقم خرچ ہوگی اور چین کا کتنا سرمایہ ہوگا۔ ذرائع کے بقول پہلا پاکستانی خلا باز خلائی تحقیق کے چینی ادارے ’’چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی‘‘ (سی ایم ایس اے) کے تعاون سے خلا میں جائے گا۔ اس حوالے سے سی ایم ایس اے اور ’’سپارکو‘‘ کے درمیان معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ مزید تفصیلات کا اعلان وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے موقع پر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشن کی تفصیلات کو میڈیا کیلئے جاری نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے خلائی مشن کے حوالے سے متعصب انڈین میڈیا اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین نے حاسدانہ تبصرے شروع کردیئے ہیں۔ بھارتی میڈیا یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی خلائی سائنسدان ہی نہیں ہے۔ پاکستان جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ صرف چین کے مرہون منت ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی خلائی سائنس کی ساری بنیاد پہلے سوویت یونین کی تحقیق سے مستعار تھی اور اب یہ ریسرچ امریکہ و اسرائیل سے مستعار ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے کافی عرصے اپنے بل بوتے پر خلائی سائنس کا ادارہ چلایا اور کئی سیٹلائٹ اپنی تحقیق اور وسائل سے تیار کیے ہیں۔ اسی سال جولائی میں پاکستان میں تیار کردہ دو مصنوعی سیاروں کو بھی پہلی بار خلا میں بھیجا گیا تھا۔ واضح رہے کہ خلائی تحقیق کے اداروں کی جانب سے خلابازوں کو خلا میں سائنسی تجربات کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ جس کیلئے خلاباز کو جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خلاباز کیلئے اسی طبی معیار کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جو کسی پائلٹ کیلئے Aviation Medical Examiner متعین کرتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا خلائی ادارہ سپارکو بھارت کے خلائی ادارے سے پہلے 1961 ء میں قائم ہوا تھا۔ البتہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس ادارے پر بہت توجہ دی گئی اور خلائی سائنس دان سلیم محمود نے اس ادارے کا مرتبہ کمیٹی سے کمیشن کروایا۔ آج سپارکو پاکستان کے اسٹرٹیجک اداروں میں شامل ہے۔ 1962ء میں اس ادارے کی جانب سے رہبر اول نامی راکٹ فضا میں چھوڑا گیا۔ یہ راکٹ سپارکو کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر عبدالسلام نے امریکہ سے لیا تھا اور اس میں تمام تر آلات امریکہ کے تھے۔ اس راکٹ کی پرواز سے حاصل ہونے والا نقشہ بھی امریکہ کو ہی ملا تھا، جبکہ چند بے ضرر معلومات پاکستان کو دی گئی تھیں۔ البتہ سلیم محمود اور ان کے جانشینوں کی محنت کے نتیجے میں سپارکو اپنا مصنوعی سیارہ تیار کرنے کے قابل ہوا۔ بدر اول پاکستان کا پہلا مصنوعی سیارہ تھا جو خلا میں 16 جولائی 1990ء کو چھوڑا گیا۔ یہ روس کے اسپوتنک اول سے بڑا تھا۔ اس اعتبار سے پاکستان خلا میں سیارہ چھوڑنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا۔ یہ سیارہ سپارکو کے 30 ماہرین کی ایک سال کی سخت محنت کے نتیجے میں تیار ہوا تھا، جو پاور سپلائی ٹریکنگ، ٹیلی میٹری اور ٹیلی کمانڈ جیسے کئی نظاموں پر مشتمل تھا۔ اس کی تیاری پر تقریباً ڈھائی کروڑ روپے لاگت آئی تھی، جو نہایت کم تھی۔ بدر اول کی شکل دائرہ نما تھی اور جسامت ساڑھے تین مکعب فٹ تھی۔ اس کے 26 رخ تھے اور وزن 50 کلوگرام تھا۔ اس کا جدید الیکٹرونک نظام زمینی مرکز سے معلومات حاصل کرنے، ذخیرہ کرنے اور پھر فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ شمسی توانائی سے چلنے والا یہ سیارہ ایک ہزار کلومیٹر کی بلندی سے ہر 98 منٹ کے بعد زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا تھا۔ وہ جس مدار پر محو سفر رہا، اس کا زمین سے کم سے کم فاصلہ 211 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ فاصلہ 992کلومیٹر تھا۔ یہ سیارہ 20 اگست 1990ء تک معلومات فراہم کرتا رہا بعد ازاں خلا کی پنہائیوں میں گم ہوگیا۔ محدود وسائل کے باوجود آج سپارکو اس قابل ہوگیا ہے کہ اپنا خلاباز اسپیس میں بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔ بھارت کو اپنے اسپیس پروگرام کے حوالے سے اتنا غرور اس لئے ہے کہ بھارت کے خلائی ادارے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے گزشتہ سال 104 سیٹلائٹس کو خلا میں بھیج کرایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس سے قبل ایک خلائی مہم کے دوران ایک ساتھ اتنے سیٹلائٹس نہیں بھیجے گئے تھے۔ اس سے قبل کسی ایک خلائی مشن میں سب سے زیادہ سیٹلائٹس بھیجنے کا عالمی ریکارڈ روس کے نام تھا، جس نے 2014ء میں ایک وقت میں 37 مصنوعی سیارے کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیجے تھے۔ بھارتی ادارے کی جانب سے بھیجے جانے والے 104 مصنوعی سیٹلائٹس میں سے صرف تین بھارت کے تھے، جبکہ باقی 101 سیٹلائٹس اسرائیل، قزاقستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ کے تھے۔ دوسری جانب پاک چین اسٹرٹیجک تعلقات کے نتیجے میں پاکستان کا خلائی ادارہ بھی ترقی اور تحقیق میں آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے ملک میں تیار کردہ پہلا خلائی سیارچہ ’’بدر اول‘‘ 1990ء میں، چین نے اپنا اولین سیارچہ ’’ڈونگ فینگ ہانگ ون‘‘ 1970ء میں۔ جبکہ ہندوستان نے ’’آریہ بھٹا‘‘ نامی اپنا پہلا سیارچہ 1975ء میں خلامیں بھیجا تھا۔ چین اپنی سرزمین سے تقریباً 280 مشن خلامیں بھیج چکا ہے، جبکہ بھارت نے اب تک 164 مشن بھیجے ہیں۔ پاکستان اس دوڑ میں کہیں پیچھے ہے۔ ہندوستان کے کل 88 سیارچے، چین کے 300 سے زائد، امریکہ کے 1600 سے زائد سیارچے زمین کے مدار میں بھیجے گئے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نے چین کے تعاون سے ’’پی آر ایس ایس ون‘‘ (1200 کلوگرام) اور ’’پاک سیٹ ون‘‘ (285 کلوگرام) نامی دو خلائی سیارچے نچلے مدار میں بھیجے ہیں جن میں سے ایک خاص طور پر پاکستانی سائنسدانوں نے اپنے وسائل سے تیار کیا ہے۔ ان سیارچوں کو زمینی مشاہدات، بالخصوص قدرتی آفات، سی پیک، ماحولیات، نقشہ سازی، زراعت اور منصوبہ بندی جیسے مختلف اہم قومی امور میں معاونت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ بھارتی افواج کو زمینی مشاہدات اور دشمن پر نظر رکھنے کیلئے ملکی ساختہ 13 مصنوعی سیارچوں کی مدد حاصل ہے۔ جبکہ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی افواج کے پاس اس معیار کا ایک بھی سیارہ موجود نہیںہے۔ لیکن پاکستانی مصنوعی سیاروں کی کارکردگی کے بارے میں دنیا لاعلم ہے۔ پاکستان اپنی دفاعی ضروریات کیلئے فرانس کے مصنوعی سیارچے پر انحصار کرتا رہا ہے، جبکہ یہ سیارچہ بھی بھارت کے لانچنگ راکٹ سے خلا میں بھیجا گیا تھا۔ بھارت کا سیارچہ ’’کارٹو سیٹ‘‘ 2005ء سے ہمسایہ ممالک کی سر زمین پر موجود ایک میٹر سے بھی چھوٹی جسامت والی چیزوں کو بہ آسانی دیکھ رہا ہے اور یوں بھارت اپنے پڑوسیوں کی مسلسل جاسوسی کرنے میں مصروف ہے۔ بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے سیارچے کو خلا ہی میں تباہ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکا ہے۔ لیکن یہ بھارت کی محض بڑہک ہی معلوم ہوتی ہے ۔
٭٭٭٭٭