پاکستان کوارٹرز کے مکین رہائش گاہوں پر کروڑوں خرچ کرچکے

سید نبیل اختر
دربدری کے خوف کے سائے تلے زندگی بسر کرنے والے پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ رہائش گاہوں پر کروڑوں روپے خرچ کر چکے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تو 1980ء ہی سے مکانوں کی مینٹی ننس کرانا بند کردی تھی۔ اس وقت سے یہ تمام اخراجات مکین ہی برداشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جب متحدہ کے وزیر صفوان اللہ نے مالکانہ حقوق کا دھوکا دیا، تو مکینوں نے ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران مکانات کی تزئین و تعمیرِ نو پر مجموعی طور پر کروڑوں روپے خرچ کئے، جو ان کی برسوں کی جمع پونجی تھی۔
’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے پاکستان کوارٹرز کے رہائشی کلیم الحق عثمان کا کہنا تھا کہ ’’تقسیم ہند کے وقت میرے والد سرکاری افسر تھے، جو قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ والد صاحب سمیت کئی سرکاری افسران و ملازم اپنی فیملیز سمیت بحری جہاز سے کراچی پہنچے تھے۔ یہاں پہنچ کر نمائش کے بعد خالی پڑے میدان (جہاں آج مزار قائد واقع ہے) میں سرکاری ملازمین و افسران کیلئے خیمہ بستی بسائی گئی۔ لیکن کچھ ہی روز بعد ہونے والی تیز بارش نے سارا نظام درہم برہم کر دیا اور وہاں رہائش رکھنا ممکن نہ رہا۔ قائد اعظمؒ کے دورے کے موقع پر ان سے درخواست کی گئی کہ ہمیں نئے شیڈز بنا دیئے جائیں، جہاں ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ رہائش اختیار کر سکیں۔ یوں بانی پاکستان کے حکم پر جمشید روڈ کے اطراف شیڈز تیار کرا دیئے گئے، تاکہ نو تشکیل شدہ اسلامی ملک کی خدمت کرنے والے سرکاری ملازمین کا رہائشی مسئلہ حل ہوسکے۔ اب ان ملازمین کے خاندانوں کو جو 70 سال سے یہاں مقیم ہیں، در بدر کرنے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ ہم تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ ہیں، جو حکومتی فیصلے سے بے گھر ہو جائیں گے۔ کیا ملک کی خدمت کا یہی انعام ہے کہ ہم سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے۔ سرکاری احکامات پر ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔ کلیم الحق کا کہنا تھا ’’ہمارے بزرگوں کو ان کوارٹرز میں منتقل کیا گیا جو لارنس کوارٹرز کے نام سے جانے جاتے تھے اور پھر اب کا نام پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز ہے۔ ان کوارٹرز کیلئے بڑے بڑے شیڈز بنائے گئے تھے۔ اس کام کا آغاز 1948ء میں ہوا۔ مذکورہ شیڈز میں تین الگ الگ کوارٹرز ایریا بنے اور عارضی اسٹرکچر کا کام چار سال میں مکمل ہوا، جہاں دس سال کیلئے رہائش کا انتظام تھا۔ افسران و ملازمین نے یہاں رہائش اختیار کی اور سکھ کا سانس لیا۔ ان ملازمین کی ریٹائرمنٹ 1970ء میں ہونا شروع ہوئی۔ ریٹائرڈ ہونے والوں کو 6 ماہ بعد عارضی مکانات خالی کرنے کا حکم پہلے ہی دیا جا چکا تھا، لیکن وہ تمام افراد کہاں جاتے، جنہوں نے لارنس کوارٹر میں سکونت اختیار کر کے کسی زمین کا کلیم تک داخل نہیں کیا تھا؟ چنانچہ ان مکینوں نے حکومت سے اپنا مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کر دیا‘‘۔
اس سے آگے کی داستان غم سناتے ہوئے محمد رضوان نے بتایا کہ ’’میرے والد کو بھی پاکستان کوارٹرز میں رہائش کیلئے جگہ فراہم کی گئی تھی۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد جب 1970ء میں مکانات خالی کرانے کی مہم شروع ہوئی تو انہوں نے رہائش کے مسئلے کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کو خطوط لکھے اور درخواست کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کو متبادل رہائش فراہم کی جائے۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے حکم نامہ جاری کیا کہ ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو یہاں سے نہ نکالا جائے، جلد ہی ان کیلئے کوئی دوسرا بندوبست کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام مکانات کا کرایہ طے کردیا گیا جو افسران و ملازمین کی تنخواہ کا سوا گیارہ فیصد تھا اور پنشن سے اس رقم کی کٹوتی شروع ہوگئی۔ اسی طرح جب ملازمین کی دوسری کھیپ کی ریٹائرمنٹ پر مکانات خالی کرانے کا شوشہ چھوڑا گیا تو پریشان حال مکین سپریم کورٹ پہنچ گئے، جہاں منسٹری آف ہائوسنگ نے موقف اختیار کیا کہ تمام ریٹائرڈ ملازمین کو مکان یا فلیٹ تعمیر کر کے دیا جائے گا۔ یہ کیس 4 سال تک چلتا رہا۔ 1984ء میں منسٹری آف ہائوسنگ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مذکورہ معاملے پر سپریم کورٹ کے احکامات کے حکم کے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی تجویز دی کہ جو جیسا ہے، ویسا ہی چلنے دیں۔ اس بار معاملہ ٹھنڈا ہونے پر آخری تنخواہ کے سوا گیارہ فیصد کے حساب سے کرائے ادا کئے جاتے رہے۔ 1992ء میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تو مکینوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق انہیں متبادل رہائش فراہم کی جائے یا جو مکانات ان کے رہائش کے استعمال میں ہیں، ان کے مالکانہ حقوق دے دیئے جائیں۔ معاملہ وفاقی کابینہ میں پیش ہوا۔ وہاں سے منظوری ہوئی کہ جو افسران و ملازمین یہ گھر استعمال کر رہے ہیں، انہیں مالکانہ حقوق دے دیئے جائیں۔ اس خبر سے مکینوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ لیکن یہ خوشی بھی کچھ عرصے کیلئے تھی۔ کا بینہ سے منظوری کے بعد جب یہ معاملہ اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان کے پاس پہنچا تو انہوں نے سمری پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ حاضر سروس سرکاری ملازمین کیلئے بنائے گئے کوارٹرز، ریٹائرڈ ملازمین کو کیسے دیئے جا سکتے ہیں؟ اس انکار کے بعد ہر طرف مایوسی چھا گئی اور کسی بھی وقت مکان خالی کرنے کی تلوار سر پر لٹک گئی۔ جبکہ اسٹیٹ آفس نے مکینوں سے دوبارہ سوا گیارہ فیصد کے حساب سے کرائے وصولی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعد ازاں وفاقی حکومت نے 1993ء میں سرکاری کوارٹرز سے کرائے وصولی کا نیا قانون بنانے کا کام شروع کر دیا اور پھر نئے قانون کے مطابق کرائے وصولی کیلئے 2002ء میں سیلنگ رینٹ کے حساب سے وصولی کا شیڈول ترتیب دے دیا گیا‘‘۔ رضوان نے بتایا کہ ’’اسٹیٹ آفس نے سیلنگ رینٹ سے متعلق آگاہ کیا کہ تمام مکین نئے قانون کے مطابق ادائیگیاں کریں گے۔ یہ سیلنگ رینٹ، پنشن کی کل رقم سے 30 سے 40 فیصد زائد تھا، جو کسی نے بھی ادا نہیں کیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کے خیال میں یہ کرایہ موجودہ مارکیٹ ویلیو سے بھی زیادہ تھا‘‘۔
متحدہ کے وزیر صفوان اللہ کی جانب سے مالکانہ حقوق سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کلیم الحق کا کہنا تھا کہ نواز لیگ کی حکومت ہو، پیپلز پارٹی یا مہاجر حقوق کی علمبردار متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان کوارٹرز کے مکینوں کو سوائے دھوکے کے کچھ نہیں ملا۔ جب ہائوسنگ کی منسٹری متحدہ کے سید صفوان اللہ کے پاس آئی تو مکینوں نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہمارے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے فوری اقدامات کریں۔ اسی دوران اسٹیٹ آفس، کرائے داروں سے سیلنگ رینٹ کا مطالبہ کر رہا تھا۔ سید صفوان اللہ نے اسٹیٹ آفس کو ہدایت کی کہ سلینگ رینٹ معطل کردیا گیا ہے، اب پرانے سوا گیارہ فیصد کے حساب سے ہی وصولی کی جائے۔ حکم آنے کے بعد مکینوں کی ہمت بڑھی اور مطالبہ کیا گیا کہ حکومت نے 1980ء کے بعد کوارٹرز کی مینٹی ننس بند کر دی تھی، جس کے بعد مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت رہائشی کوارٹرز پر اخراجات کئے، لہذا انہیں مالکانہ حقوق دیئے جائیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں متحدہ کے وزیر صفوان اللہ نے 2006ء میں اس بنیاد پر مالکانہ حقوق دینے کا اعلان کیا کہ مکین کافی عرصے سے رہ رہے ہیں۔ صفوان اللہ نے اسٹیٹ آفس سے تمام مکینوں کو ایک سرٹیفکیٹ بھی جاری کرایا، وہ سرٹیفکیٹ ایک گتے پر مشتمل تھا، جس کے دائیں طرف مکین کی تصویر اور بائیں طرف وزارت ہائوسنگ کا لوگو ہے۔ اوپری حصے میں درمیانی طرف گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری آف ہائوسنگ اینڈ ورکس اسٹیٹ آفس کراچی درج ہے۔ ذیل میں مکین کا نام، اس کی ولدیت، کوارٹر نمبر، کوارٹر کا اسکوائر فٹ ایریا اور جہانگیر روڈ اسٹیٹ کراچی تحریر ہے۔ اس پر اسٹیٹ افسر اور متعلقہ حکام کے دستخط اور مہریں بھی ثبت ہیں۔ پی ٹی وی پر بھی اس کی خبر چلی اور تمام اخبارات میں اس اقدام کو سراہا گیا۔ مکانات کے مالک بننے کے بعد لوگوں نے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا اور ایک ڈیڑھ سال کے دوران مکانات کی تزئین و تعمیرِ نو پر کروڑوں روپے کے اخراجات کر ڈالے۔ اس دوران کرائے کی مد میں پنشن سے کٹنے والی رقم بھی نہیں کاٹی جا رہی تھی۔ لہٰذا تمام افراد خود کو کوارٹر کا مالک سمجھنے لگے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی گارڈن آفیسرز کالونی کے مکین، سیلنگ رینٹ وصولی پر وزارت ہائوسنگ اور اسٹیٹ آفس کو فریق بناتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کے مکینوں کی طرح ان سے بھی پنشن کی طرز پر وصولی کی جائے اور سیلنگ رینٹ وصول کرنا بند کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ میں یہ کیس چلا تو صفوان اللہ کے مالکانہ حقوق کے سرٹیفکیٹ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ کیونکہ اس اراضی کی ملکیت کی تبدیلی کیلئے نہ تو قومی اسمبلی سے اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی تھی۔ چنانچہ عدالت عالیہ سندھ نے پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کے مکینوں کو سیلنگ رینٹ ادا کرنے کے احکامات دیئے۔ اتنا ہی نہیں، عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ جس تاریخ سے سیلنگ رینٹ معطل کیا گیا تھا، اسی روز سے ادائیگی کرنا ہوگی۔ یہ رقم ہر کوارٹر کے مکین کیلئے کافی زیادہ تھی۔ کیونکہ کسی کے حصے میں 6 تو کسی کے حصے میں رقبے کے لحاظ سے 8 لاکھ روپے آر ہے تھے۔ سیلنگ رینٹ کے حساب سے ادائیگی نہ ہوئی تو اسٹیٹ آفس نے تمام مکینوں کو ڈیفالٹر قرار دیتے ہوئے مکانات خالی کرنے اور اراضی سے قبضہ ختم کرنے کی ہدایت جاری کر دیں۔ اس نئی آفت کو دیکھ کر مکینوں نے عدالت کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مکینوں کی جانب سے استدعا کی گئی کہ انہیں جو مالکانہ حقوق کے سرٹیفکیٹ دیئے گئے، اسی بنا پر تمام افراد نے اپنے مکانوں پر مجموعی طور پر کروڑوں روپے کے اخراجات کئے ہیں۔ یہ بھی استدعا کی گئی کہ مکینوں نے 1980ء کے بعد سے یوٹیلٹی سہولیات پر بھی خود ہی اخراجات کئے اور اس کیلئے اسٹیٹ آفس سے این او سی بھی حاصل کیا، جس کی بنا پر مکینوں کے حق میں فیصلہ کیا جائے۔ مذکورہ کیس میں سرکاری عدم دلچسپی کے باعث 2012ء سے 2018ء تک تاریخ پہ تاریخ پڑتی رہی۔
مزید معلومات دیتے ہوئے رضوان نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے دباؤ کے باعث 16 جولائی 2018ء کو سندھ ہائی کورٹ نے کیس ختم کر دیا اور کہا کہ یہ کیس سماعت کے ہی قابل نہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو عدالت عظمیٰ نے سید صفوان اللہ کے مالکانہ حقوق والے سرٹیفکیٹ جعلی قرار دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔ بعد ازاں 4 اکتوبرکو اسلام آباد کیس کی سماعت ہوئی جس میں اسٹیٹ افسر طلب کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کراچی کی اراضی پر قبضے کے متعلق دریافت کیا تو اسٹیٹ افسر نے مؤقف اختیار کیا کہ ایک مکان خالی کرانے پر 20 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن کراچی میں اب تک ایک مکان بھی خالی نہیں کرایا جاسکا ہے۔ اسٹیٹ افسر نے عدالت کو یہ بتایا کہ سیلنگ رینٹ کی رقم عدم ادائیگی پر ساڑھے تین ارب روپے تک جا پہنچی ہے اور عدم ادائیگی کی وجہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کیا اور آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کو ہدایت کی کہ وہ اراضی خالی کرائیں۔ اس سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہاں سے قبضہ ختم کرانے میں مشکلات ہیں، جس پر عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ نقصان انہی پنشنرز سے ان کی پنشن کاٹ کر وصول کیا جائے، یہ حکم آنے کے بعد 24 اکتوبر کو پاکستان کوارٹرز خالی کرانے کیلئے آپریشن کیا گیا جس میں 16 افراد زخمی ہوئے اور گورنر کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان نے مکینوں کو قبضہ ختم کرنے کیلئے 3 ماہ کی مہلت دی۔
پاکستان کوارٹر کے ایک مکین انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹرز کی اراضی پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ کی ملکیت ہے جن کی ان کے پاس بھی کوئی دستاویزات نہیں ہیں، یہ اراضی 1915ء میں کچھ مقامی ہندئوں کے نام پر 80 سالہ لیز پر الاٹ کی گئی تھی جو بعد ازاں ان سرکاری ملازمین کو کرائے پر دی گئی جو پاکستان کی بیروکریسی چلانے کیلئے قائد اعظم کی اپیل پر ہجرت کرکے آئے تھے۔ 1995ء میں یہ لیز ختم ہوئی تو اصولی طور پر یہ زمین بورڈ آف ریونیوکی ملکیت ہوگئی اور اس حساب سے اس اراضی کا قبضہ حکومت سندھ کو لینا چاہیئے تھا‘‘۔ ایک اور مکین عبید اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ ’’اگر پاکستان کوارٹرز کی اراضی پی ڈبلیو ڈی کی ملکیت مان لی جائے، تب بھی اس معاملے کو سندھ حکومت کے ذریعے حل ہونا چاہئے، جیسے عثمانیہ مہاجر کالونی، عثمانیہ کالونی نمبر1 اور نمبر 2، گنج شکر اور مخدوم کالونی، داد محمد ویلیج، پٹیل پاڑہ، موسیٰ کالونی اور پنچابی کالونی کی 77 ایکٹر اراضی کی وفاق کو ادائیگی کر کے سندھ حکومت نے کچی آبادی اتھارٹیز کے ذریعے کے ایم سی کی لیز کرا کے دی اور وہاں کے مکینوں سے انتہائی معمولی رقم وصول کی گئی۔ جبکہ ان آبادیوں سے متصل کچھ اراضی کو بھی محض 500 روپے گز کے حساب سے ان افراد کو الاٹ کیا گیا، جو وہاں کافی عرصے سے قابض تھے‘‘۔ پاکستان کوارٹرز کے مکین نعیم اور عارف کا کہنا تھا کہ ’’مالکانہ حقوق پر ادائیگی کیلئے مکینوں نے مشترکہ طور پر وفاق کو تجویز بھی دی تھی جس میں ہر مکان کے اسکوائر فٹ کے حساب سے ادائیگی کا شیڈول بنایا گیا تھا۔ اس میں فی گز 500 روپے کے حساب سے ادائیگی کی ہامی بھری گئی تھی اور استدعا کی گئی تھی
کہ جیسے دیگر 8 علاقوں میں 500 روپے گز کے حساب سے وصولی کی گئی ہے۔ ہم سے بھی رقم وصول کرلی جائے اور تمام افراد کو مالکانہ حقوق دے دیئے جائیں۔ لیکن یہ تجاویز اسٹیٹ آفس کی کیس فائل میں گم کردی گئیں اور اب ڈیڑھ لاکھ کی آبادی پر شب خون مارنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں‘‘۔ عبیداللہ قریشی، حکیم محمد سعید، عارف، عبید اللہ قریشی، دائود بخاری اور اقبال صدیقی نامی مکینوں کا کہنا تھا کہ 4 ہزار 200 کوارٹرز کے مکینوں نے 2000ء میں اسٹیٹ آفس سے بجلی کنکشن کیلئے این او سی حاصل کیا، جس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی نے میٹر کی تنصیب کیلئے ایشین الیکٹرک کمپنی سے رابطے کی ہدایت کی تھی۔ 4 فروری 2000ء کو مذکورہ ٹھیکدار کمپنی نے بجلی کی تاریں اور میٹر لگوائے اور اخراجات کی وصولی مکینوں سے کی۔ مکینوں کا کہنا تھا کہ یہ محض پاکستان کوارٹرز اور مارٹن کوارٹر خالی کرانے کا مسئلہ نہیں۔ یہ 80 ایکڑ قیمتی اراضی پر قبضے کی پلاننگ ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ ڈیڑھ لاکھ مکینوں کو بہتر متبادل جگہ فراہم کی جاسکے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment