سلطان سنجراور خرقہ پوش

سلطان سنجر کا ایک گاؤں سے گزر ہوا۔ سرراہ ایک خرقہ پوش فقیر کھڑا تھا۔ اس نے بادشاہ کو سلام کیا۔ بادشاہ کچھ پڑھ رہا تھا۔ اس نے سلام کے جواب میں فقط سر ہلا دیا۔ (جیسا کہ آج کل بھی بعض لوگوں کی عادت ہے کہ بجائے جواب کے فقط سر ہلادیتے ہیں، جو شرعاً غلط ہے) اور زبان سے جواب نہ دیا۔
فقیر نے کہا: اے بادشاہ، سلام کرنا پیغمبرؐ کی سنت ہے اور اس کا جواب دینا واجب ہے، میں تو سنت بجا لایا۔ آپ نے واجب کو کیوں ترک کیا؟ بادشاہ نے جواباً کہا اے درویش میں خدا تعالیٰ کی شکر گزاری میں مشغول تھا۔ اس وجہ سے تیرے سلام کا جواب دینا بھول گیا۔
فقیر نے کہا: کس کا شکر ادا کر رہے تھے؟ بادشاہ نے کہا: خدائے منعم کا، جس نے بے شمار نعمتوں سے ہمیں نوازا ہے۔ درویش نے کہا کس طرح شکر ادا کررہے تھے؟ کہا کلمہ الحمد للہ پڑھ کر، کیونکہ تمام خداوندی نعمتوں کا شکر اسی ایک کلمہ سے ہی ہے۔ (اگرچہ خدا کی تمام نعمتوں کا شکر اس کلمہ سے بھی ہوتا ہے۔ لیکن فقیر نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہ کو جامع نصیحت کردی۔)
فقیر نے کہا: اے سلطان تم شکر کا صحیح طریقہ نہیں جانتے، یہ شکر نہیں ہے کہ آپ نے بلبل نغمہ سرائی کی طرح کلمۂ حمد زبان سے چہچہا دیا۔ بادشاہ نے کہا: دوسرا صحیح اور درست طریقہ آپ فرمایئے۔ درویش نے کہا:
-1 سلطنت کا شکر یہ ہے کہ تمام خدا کی مخلوق کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ہے۔ ان کے ساتھ احسان کرنا اور ان کی دولت واملاک میں طمع ولالچ نہ کرنا۔
-2 حق تعالیٰ جب کسی کو بلند مرتبہ پر فائز کرے تو اس کا شکر عاجزوں اور مسکینوں پر رحم کرنا ہے۔
-3 فرمانروائی اور حکومت ملنے کا شکر فرمانبرداروں اور ماتحتوں کی خدمت کرنا ہے۔
-4 صحت کا شکر بیماروں کی صحت یابی کا انتظام کرنا اور آسائش وآرام مخلوق کو اپنے آرام وراحت پر مقدم رکھنا۔
بادشاہ نے ان کلمات کو آب زر (یعنی سونے کے پانی) سے لکھوا کر اپنا دستور العمل بنایا (وہ نیک دل بادشاہ تھے، بات غور سے سنتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ (محزن اخلاق ص 446)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment