حضور سرور کائناتؐ کا فرمان: ’’جو خدا کا ہو جاتا ہے، خدا اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘ اس لئے سمجھدار انسان وہ ہے جو دنیا کی چند روزہ زندگی میں پھنس کر آخرت کو نہ بھلائے، اس واقعہ میں ہمارے لئے بڑا سبق یہ ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ سے تعلق رکھنا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ دنیا والے اچھا کہتے ہیں یا برا؟ یہی وجہ ہے کہ شہزادے نے دنیا کی بادشاہت کو لات مار کر باطنی حکومت اختیار فرمائی اور محنت و مزدوری کر کے گزر بسر کرنے کو ترجیح دی، جیسا کہ ابو عامر بصری نے ان کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ابو عامر نے پوچھا: کیا آپ مزدوری کریں گے؟ تو انہوں نے کتنا دانشمندانہ جواب دیا، ہم تو کام کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں یعنی خدا نے بے کار پیدا نہیں فرمایا، یہ نہیں کہ آدمی دوسرے پر بوجھ بن جائے، بلکہ دوسرے کا بوجھ ہلکا کرے، چنانچہ انہون نے دو شرطوں پر ابو عامر سے مزدوری کرنا طے کی، پہلی شرط نماز کے وقت کام چھوڑ کر چلا جاؤں گا، دوسری شرط طے شدہ مزدوری سے نہ کم لوں گا نہ زیادہ۔ ان دونوں شرطوں پر مسلمان غور کریں، کتنے مسلمان ہیں جو وقت پر نماز پڑھتے ہیں، پھر مزدوری پیشہ حضرات غور کریں کہ نماز پڑھنا تو بہت بڑی بات ہے، نماز کے تصور سے ذہن ہی خالی ہیں، کم خدا کے بندے ایسے ہوتے ہیں، جو نماز کا خیال رکھتے ہیں۔ رہا مزدوری کا مسئلہ تو وہ بھی ایسا ہوگیا ہے کہ سن کر آدمی کے ہوش وحواس گم ہو جاتے ہیں اور منہ سے جو چاہا مزودی مانگ لیتے ہیں، حیرانی ہوتی ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اتنا کمانے کے باوجود بھی مزدور پریشان رہتا ہے اور کمائی میں بے برکتی کہ شکوے شکایات کرتے ہیں، ایک یہ شہزادے تھے کہ ابو عامر نے ان کے کام سے خوش ہو کر مزدوری زیادہ دینی چاہی تو یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا میں کیا کروں گا؟ پھر ہفتہ میں صرف ایک دن کام کیا کرتے تھے اور چھ دن یاد خدا میں صرف کیا کرتے تھے۔ آج کی دنیا میں ایسی مثال تلاش سے بھی شاید ہی مل سکے، کاش مسلمان پکے نمازی بن جائیں، سچ بولنے کو اپنا شیوہ بنائیں اور خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں، دیانت و امانت سے کام کریں، تاکہ برکت اور امن وسکون سے زندگی گزارے۔
شہزادے سکرات موت میں مبتلا ہیں، ایسی حالت میں ابو عامر مزاج پرسی کے لئے جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ایک کچی اینٹ پر ان کا سر رکھا ہوا ہے، گویا تکیہ کے بجائے سرہانے اینٹ رکھی ہوئی ہے، ابو عامر نے ان کا سر اپنی ران پر رکھا تو آنکھ کھول کر منع کردیا اور کہا میرا اسر اینٹ پر ہی رکھ دو۔ اس حالت میں بھی ابو عامر کو ایسی زریں نصیحت کی کہ اگر مسلمان اس کو پیش نظر رکھیں تو کبھی دنیا میں دل نہ لگائیں اور یاد خدا سے غافل نہ ہو۔ نصیحت میں فرمایا: ’’اے میرے دوست! دنیا کی لذتوں کو دیکھ کر دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ یہ عمر ایک دن ختم ہو جانی ہے اور دنیا کی نعمتیں یہیں رہ جائیں گی‘‘۔ پھر فرمایا: ’’جب تو کسی جنازہ کے ساتھ قبرستان جائے تو یہ خیال کر کہ ایک دن مرکر تُو بھی قبرستان اسی طرح لے جایا جائے گا۔‘‘
وصیت میں یہ فرمایا کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے غسل دے کر میرے جسم کے پرانے کپڑوں کو کفن دے کر دفن کر دینا، کیونکہ قبر میں کفن ایک دن ختم ہو جائے گا، قبر میں میت کے کام آنے والی چیز اس کے نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت فرمایا تھا کہ رسول اقدسؐ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’تین کپڑوں میں۔‘‘ حضرت ابو بکرؓ اس وقت دو پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’تو بس میرے جسم کے ان دونوں کپڑوں کے ساتھ تیسرا کپڑا بازار سے خرید کر مجھ کر کفن دیدینا، یہ سن کر عائشہ صدیقہؓ نے کہا: ابا جان ہم تینوں نئے کپڑے بازار سے خرید سکتے ہیں۔‘‘ تو حضرت ابو بکرؓ نے جواب دیا: بیٹی نئے کپڑوں کے زندہ لوگ نسبت مردوں کے زیادہ مسحق ہیں۔‘‘ محترم قارئین! غور کریں، شہزادہ ہارون اور صدیق اکبرؓ کی وصیت میں کتنی مماثلت ہے، نیک لوگوں کے کام رضائے مولیٰ کیلئے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ میں سمجھدار آدمی کیلئے بڑی سبق آموز باتیں ہیں۔
٭٭٭٭٭