عباس ثاقب
اتنی بڑی رقم لال سنگھ نے شاید اپنے کسی ’’سودے‘‘ میں وصول نہیںکی ہوگی۔ یہاں تو کچھ سپلائی کئے اور کسی کو بھی حصہ دیئے بغیر ہاتھ لگ رہی تھی۔ نوٹوں کی گڈی پر نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں میں کچھ ویسی ہی چمک ابھری تھی، جیسے کسی میمنے کو دیکھ کر کسی خوں خوار بھوکے بھیڑیے کی آنکھوں میں نمودار ہوتی ہوگی۔ اگر وہ منہ کھولتا تو شاید رال بھی ٹپک پڑتی۔ ان چند لمحوں کے دوران اس کی نظریں نوٹوں پر گویا چپک کر رہ گئی تھیں، حتیٰ کہ وہ ایک بار پھر میری جیب میں جا چھپے تھے۔
میں نے کہا ’’میری بات غور سے سنو، میرا نام بہادر سنگھ ہے اور میں اپنے لیے خدمات انجام دینے والوں کی حق تلفی نہیں کرتا۔ تم میرا دل خوش کرو، میں تمھیں خوش کردوںگا۔ میرے لیے پیسہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ میں تمھیں دو سو روپے کے علاوہ بھی انعام دے سکتا ہوں۔‘‘
بالآخر اس نے خود کو سنبھالا اور اپنے لہجے کی بے تابی چھپاتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے، مجھے کچھ چند منٹ کی مزید مہلت دیں۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ اس نے اسی مسہری کے نیچے چھپے ایک ٹرنک سے کپڑوں کا ایک جوڑا نکالا اور کمرے سے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹا تو خاصے بہتر حلیے میں تھا۔ البتہ اس کی سابقہ حالت کا تصور ذہن میں آنے پر اس کے لیے میرے ذہن میں موجود کراہت بار بار عود کرآتی تھی۔ میں نے اپنا دھیان بٹانے کے لیے کہا ’’کیا ہم پہلے مانک کے گھر چلیں گے؟‘‘
اس نے زور زور سے انکار میں سر ہلایا ’’ہم پہلے ایک مسافر خانے جائیں گے جہاں مانک اکثر رات گزارنے جاتا ہے۔ بلکہ آپ سے کیا پردہ، وہ مسافرخانہ مانک ہی کا ہے اور وہ اسے اپنے دھندے کے اڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اگر وہ وہاں نہیں بھی ملا تو مجھے امید ہے کہ اس کا کچھ اتا پتا ضرور مل جائے گا۔‘‘
اس نے گھر کے دروازے کے قریب ایک تنگ سی راہداری سے ایک موٹرسائیکل نکالا۔ گھر کو تالا لگانے کے بعد اس نے مجھے اپنے پیچھے بیٹھنے کی دعوت دی۔ اس کی مستعدی بڑھانے کیلئے میں نے موٹرسائیکل روانہ ہونے سے پہلے ایک سو روپے اس کی جیب میں ڈال دیے۔ نوٹوں پر نظر پڑتے ہی اس کی طبیعت باغ باغ ہوگئی اور وہ گویا سرور کے عالم میں اپنی موٹر سائیکل پٹیالا کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر دوڑانے لگا۔
اس نے اپنی جیب میں آنے والی موٹی رقم کا حق ادا کرنے کیلئے فوراً ہی پٹیالا شہر اور مانک کے بارے میںمعلومات میرے کانوں میں انڈیلنا شروع کردیں ’’مانک کا یہ مسافر خانہ فاؤنٹین چوک کے قریب واقع ہے اور وہاں واقع پھُل سنیما اس کے کارندوں کیلئے گاہک تلاش کرنے کا خاص اڈا ہے۔ اس کے علاوہ شہر کی دیگر مختلف تقریح گاہوں اور تاریخی مقامات کی سیر کیلئے آنے والے سیاح اور عبادت گاہوں میں آنے والے یاتری بھی گھیرے جاتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا ’’کیا اس شہر میں جسم فروشی پر کوئی قانونی روک ٹوک نہیں ہے؟ میرا مطلب ہے یہ دھندا کھل کر کیا جاتا ہے یا چوری چھپے؟‘‘
اس نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ بتایا ’’پٹیالا آزادی سے پہلے ایک نیم مختار ریاست تھی اور یہاں راجا کا سکہ چلتا تھا۔ اس دور میں تو انگریزوں کا قانون تھا اور منظم جسم فروشی کے خلاف برائے نام قوانین ہونے کے باوجود عملاً کھلی چھوٹ تھی۔ سوتنترت (آزادی) کے بعد پہلے جیسی بات تو نہیں رہی، لیکن پھر بھی سب چلتا ہے۔ قانون سے زیادہ ہم جیسوں کو عوام کے ردِ عمل سے خطرہ ہوتا ہے جو اپنے گلی محلوں میں جسم فروشی کا اڈا برداشت نہیں کرتے۔‘‘
میں نے اسے کریدا ’’لیکن جسم فروشی کے خلاف قانون تو موجود ہے۔‘‘
اس نے کہا ’’ہاں، کچھ عرصے پہلے ایک قانون پاس ہوا تھا، لیکن وہ بیسوا (جسم فروش) کو دھندے سے روکتا نہیں ہے، بس کھلم کھلا پرچانے (دعوت ِ گناہ) پر روک لگاتا ہے اور عوامی مقام پر ایسی ویسی حرکت پر بھی پابندی ہے۔ اسی طرح جسم فروشی کے اڈے قائم کرنا غیر قانونی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’پھر تو مانک کی گردن پھنس سکتی ہے۔‘‘
میری بات سن کر لال سنگھ نے قہقہہ لگایا ’’سرکار کیسی بچوں والی بات کرتے ہو؟ آپ کو شاید پتا نہیں، اور اگر پتا ہے تو بھول گئے ہیں کہ اس کے سر پر کس کا ہاتھ ہے! پولیس تو مانک کے اڈے کی چوکی داری کرتی ہے اور اس سے لین دین میں کوئی گھپلا کرنے یا اڈے پر مار پیٹ کرنے والوں کی تھانے میں خاطر تواضع کی جاتی ہے۔‘‘
مانک کی زیر ملکیت مسافر خانہ ’’شانتی استھان‘‘ میرے اندازے سے بڑی دو منزلہ عمارت ثابت ہوئی جس کے نچلے حصے میں قطار سے دکانیں بنی ہوئی تھیں اور دوسری منزل پر کم از کم بیس بائیس اقامتی کمرے رہے ہوں گے۔ لال سنگھ مجھے ساتھ لیے عمارت کے پہلو میں بنے ایک بڑے سے دروازے کی طرف بڑھا جہاں ایک نالی شاٹ گن سنبھالے ایک گارڈ مستعدی سے پہرا دے رہا تھا۔ اس نے لال سنگھ کو دیکھتے ہی سلام جھاڑا اور بخشش میں کوئی سکہ وصول کیا۔
بیس کے قریب سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر پہنچے توکشادہ راہداری میںسامنے ہی ایک بڑی سی میز کے پیچھے ایک چالیس بیالیس سالہ سیاہ فام شخص گھومنے والی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اونگھتا نظرآیا۔ اس کی گھنی مونچھیں اس کے چہرے کی کالک میں مزید اضافہ کررہی تھیں۔
لال سنگھ نے میز کے سامنے پہنچ کر بے تکلفی سے اسے پکارا ’’ابے او رندھیر مشرا ! تیری نیند کبھی پوری بھی ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘
سیاہ فام شخص ہڑبڑا کر جاگا۔ پھر اس کے سرمئی ہونٹوں پر شرمسار سی مسکراہٹ ابھری اور زردی مائل سفید دانتوں کی جھلک دکھائی دی ’’آؤ، آؤ لال سنگھ جی، کئی دن بعد چکر لگایا۔ کام دھندا مندا چل رہا ہے کیا؟‘‘
لال سنگھ نے کہا ’’ابے میلہ شروع ہو رہا ہے ناں، سب کسر نکل جائے گی۔ دو تین ہفتوں میں سال بھر کا دھندا کرلیں گے۔‘‘
اس کی بات سن کر رندھیر نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر اس نے مجھے غور سے دیکھ کر شاید میری مالی حیثیت جانچنے کی کوشش کی۔ شاید کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس نے الفاظ کا محتاط استعمال کرتے ہوئے لال سنگھ سے پوچھا ’’یہ مہاشے کون ہیں؟ کیا انھیں ٹھہرنے کے لیے کمرا چاہیے؟‘‘
لال سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یہ بہادر سنگھ جی ہیں۔ دلّی کے رئیس۔ یہ صرف خاص مال کے شوقین ہیںاور منہ مانگے دام چکاتے ہیں۔‘‘
اس موقع پر میں نے معاملے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ٹھوس، بارعب لہجے میںکہا ’’رندھیر مشرا، کیا تم مجھے مانک جی سے ملوا سکتے ہو؟ میں نے اس کی بہت تعریف سنی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے مطلب کا مال وہی مہیا کرسکتا ہے۔‘‘
میری بات سن کر اس کی آنکھیں پھیل سی گئیں۔ پھر اس نے سوالیہ نظروں سے لال سنگھ کی طرف دیکھا۔ میں نے اسی حاکمانہ لہجے میں بات آگے بڑھائی ’’مانک کے کارندے میرے جیسی موٹی آسامیوں کو ہوٹلوں اور مسافر خانوں میں ڈھنڈتے پھرتے ہیں، میںخود یہاں آگیا ہوں تو اتنا حیران پریشان کیوں ہورہے ہو؟ فکر نہ کرو، تمھارا حق محنت تمھیں مل جائے گا۔‘‘
لال سنگھ نے بھی اسے یقین دلایا کہ میں زبان کا پکا ہوں اور دل خوش کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ رندھیر نے مطمئن ہوتے ہوئے لال سنگھ کوکہا
’’تمھیں تو پتا ہے مانک جی شام کے بعد ہی سرگرم ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر یہیں سوتے ہیں لیکن پرسوں رات سے وہ اس طرف نہیں آئے اور کچھ دیر پہلے پیغام آیا تھا کہ وہ دو دن کیلئے چندی گڑھ چلے گئے ہیں۔‘‘
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا ’’سرکارآپ پتا دے جائیں کہ کہا ں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی مانک جی یہاں کا چکر لگاتے ہیں، میں آپ کو بلوالوں گا۔‘‘
میں نے کہا ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں پرسوں صبح سے یہیں قیام کرلیتا ہوں تم میرے لیے ایک اچھا سا کمرا ریزرو کردو۔ مانک جی جب بھی آئیں گے، ان سے یہیں مل لوں گا۔‘‘
میری بات سن کر وہ خوش ہوگیا ’’ہاں جی، اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔ میں یہاں کا سب سے اسپیشل کمرا آپ کیلئے کھلوا دوں گا۔ اچھا کیا آج ہی بات کرلی، کل سے میلے میں آنے والے یاتریوں کا رش لگ جائے گا۔‘‘
میں نے چلتے ہوئے پچاس روپے بطور بخشش رندھیر کو تھمائے تو اس کی باچھیں کھل گئیں۔ مسافرخانے سے نکل کر میں ایک بار پھر لال سنگھ کی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ گیا ’’چلو یار، مجھے قلعہ مبارک تک چھوڑ دو!‘‘
لال سنگھ نے اثبات میں سر ہلایا اور پٹیالا کی سڑکوں پر ہمارا سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ اسے یقیناً اپنی بقیہ رقم وصول کرنے کی جلدی رہی ہوگی، لہٰذا اس نے محض بات سے بات نکالنے کیلئے خوشامدی لہجے میں کہا ’’بہادر سنگھ جی، ناراض نہ ہوں تو پوچھ سکتا ہوں کہ دلّی میں آپ کا کیا دھندا ہے؟‘‘
میں نے بھڑکنے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا ’’ابے دھندا نہیں، کاروبار! میرے پتا جی کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں۔ جائیداد کا لین دین بھی کرتے ہیں۔ سرکاری ٹھیکے بھی لیتے ہیں۔ میں ان سب کاروباروں میں ان کا ہاتھ بٹاتا ہوں۔‘‘
لال سنگھ نے مرعوب ہوتے ہوئے کہا ’’پھر تو موجیں لگی ہوئی ہیں سردار جی۔ اچھا اب میرے لیے کیا حکم ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’تمھارا ٹھکانا دیکھ لیا ہے۔ ضرورت پڑی تو رابطہ کرلوں گا۔ فی الحال تو مجھے قلعہ مبارک پہنچا دو۔‘‘
اس نے مسکین لہجے میں کہا ’’وہ تو ہم پہنچنے والے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ میں مانک جی کو آپ سے ملوا تو نہیں سکا لیکن…‘‘
میں نے اس کی بات کاٹ کر طنزیہ لہجے میں کہا ’’ابے رو مت، تیرا کام پورا ہوگیا۔ تیری باقی رقم دے کر بھیجوں گا تجھے۔‘‘
میری تسلی نے اس کے دل کی کلیاں کھلا دیں اور وہ باقی مختصر راستے میں وہ خوشی سے چہکتا رہا۔ بالآخر اس نے مجھے فن تعمیر کے عالی شان شاہکار قلعہ مبارک کے بلند و بالا پھاٹک کے سامنے اتار دیا۔ اس نے بتایا کہ قلعے پر اب حکومتِ ہندوستان کا قبضہ ہے۔ تاہم راجا خاندان کی رہائش کے لیے اب بھی قلعے کا ایک بڑاحصہ مختص ہے اور عوام الناس کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے حقیقتاً قلعہ دیکھنے سے کوئی خاص دل چسپی نہیں تھی، لہٰذا میں نے اس کے انتباہ پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اسے رخصت کرنے سے پہلے میں نے بقیہ ایک سو روپے اس کے حوالے کردیے تھے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭