احمد خلیل جازم
حافظ محمد ابراہیم کا مزید کہنا تھا کہ ’’قادیانیوں میں دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک لاہوری گروہ ہے اور دوسرا قادیانی۔ لاہوری گروپ، مرزا کو ’’امتی نبی‘‘ کہتا ہے۔ لاہوری گروپ کیلئے ہی قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ نے کہا کہ نبی امتی، کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ ڈائریکٹ نبی ہے اور اسے صرف نبی کہو۔ لیکن یہاں تو مرزا نہ صرف نعوذ باللہ نبوت کا دعویٰ کرتا رہا۔ بلکہ خود کو امام، مامور، من اللہ ، مجدد، مہدی، مسیح، ظلی و بروزی نبی بھی کہلاتا رہا۔ قادیانی ابھی تک یہ نہیں ثابت کرسکے کہ یہ مرزائی صرف نبی تھا، امتی نبی تھا، مسیح تھا یا پھر مہدی تھا ۔یعنی وہ تمام انبیاء کرام کے بعد نعوذ بااللہ آیا اور باقیوں کو پیچھے چھوڑ گیا، جبکہ اس کے قول و فعل میں مکمل تضاد موجود تھا۔ حتیٰ کہ حالت یہ تھی کہ وہ کہیں ایک بات کرتا ہے تو دوسری جگہ اسی بات کی ڈھٹائی سے نفی کردیتا ہے۔ اس وقت ایک قادیانی دوست نے مجھ سے کہا کہ مرزا کی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ نے مجھے یروشلم عطا کر دیا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی، اس وقت حکومت انگریز کی تھی بعد میں یروشلم پر اسرائیلی قبضہ ہوگیا، تو مسلمانوں (قادیانیوں) کو یروشلم کہاں ملا۔ میں چونکہ قادیانی مبلغ تھا، میرے پاس اس کا جواب نہ تھا۔ میں نے مربیوں سے یہ سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ فکر نہ کریں، یہ بات ضرور پوری ہوگی۔ یعنی مرزا وہاں بھی جھوٹ بک گیا کہ اسے یروشلم دے دیا گیا ہے۔ یہ سب فراڈ اور جھوٹ ہے۔ اس پر مرزا کہتا ہے کہ یہ تو شروعات ہے ابھی اور بھی ملیں گے، یعنی وہ تمام ترکے جو مسلمانوں سے چھینے گئے وہ سب ملیں گے۔‘‘
حافظ ابراہیم نے اس بات کے جواب میں جب آپ کو یہ سب کچھ سمجھ آگیا تو ان کے مربیان کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آتی کہ مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا تھا؟ اس پرحافظ ابراہیم نے کہا کہ ’’دراصل ان لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ مہدی کا زمانہ ہے اور مرزا قادیانی ہی مہدی تھا۔ اگر کوئی اور دعویٰ کرے گا کہ وہ بھی مہدی ہوگا تو وہ اسے بھی قبول کرلیں گے۔ فی الحال تو یہی ہے اگر یہ جھوٹا ہے تو آئندہ آنے والے سچے کی پیروی کریں گے اور اگر یہ سچا ہوا اور ہم نے نہ مانا تو پھر کتنا بڑا گناہ ہوگا۔ یعنی ان کے دماغ اتنے مائوف کردئیے گئے ہیں کہ مرزا یہ سب کچھ لکھ گیا ہے کہ مسیح اور مہدی کی جو نشانیاں مجھ پر پوری نہیں اترتیں، ہو سکتا ہے میرے بعد ان نشا نیوں والا کوئی اور آجائے۔ اسی سے اندازہ لگائیں کہ اگر وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا تو یہ بات کہہ ہی نہیں سکتا، یہی جملہ ہی مرزائیوں کیلئے کافی ہے کہ مرزا جھوٹا ہے۔ چنانچہ میں 2010ء سے لے کر 2012ء تک قادیانیت چھوڑ کر صرف قادیانیوں کے مربیوں سے سوالات کرتا رہا۔‘‘ حافظ ابراہیم نے وہ سب کچھ کہا جو ہم پہلے بھی انہی سطور میں بیان کرچکے ہیں۔ اب حافظ صاحب کی واپسی کے سفر کے ساتھ ساتھ وفات مسیح پر ان کے واضح موقف پوچھنے کی ضرورت تھی کہ انہیں کیسے یقین آیا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’دیکھیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے ہمارے علمائے دین کو چاہیے کہ ان سے کوئی اس طرح کا سوال کرے تو وہ ایسے شخص کو کسی ایسے عالم دین کی جانب بھیج دیں جو اس حوالے سے مکمل علم رکھتا ہو۔ مجھے ڈاکٹر آصف صاحب ملے جنہوں نے قادیانی سمجھ کر مجھے تبلیغ شروع کی تو میں نے انہیں تمام حالات بتائے کہ میں تو قادیانیت چھوڑ چکا ہوں لیکن میرے ان سوالات کا جوابات آپ دیں۔ انہوں نے وفات مسیح پر تسلی کرائی اور پھر مولانا محمد مغیرہ، مرکزی ناظم شعبہ تبلیغ مجلس احرار اسلام پاکستان جنہوں نے میری تشکیک اس طرح دور کی اب کسی قسم کا کوئی گمان بھی میرے دماغ میں نہیں ہے۔ دراصل عربی لغت کو سمجھنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ عام مسلمان کو اتنا علم نہیں ہے، قادیانی کلٹ انہیں ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ جیسے میٹھے بول سے جال میں پھنساتا ہے اور عام مسلمان بے چارہ پھنس جاتا ہے۔ جبکہ خود عام قادیانی بھی جانتے ہیں کہ مرزا ملعون جھوٹا اور دوغلا ہے۔ اسی طرح محمد متین خالد اور مجلس احرار کے دیگر علمائے دین جیسے ختم نبوت کے مجاہدین موجود ہیں جو عام مسلمانوں حتیٰ کہ قادیانیوں کو بھی اس حوالے سے مطمئن کرنے کو کافی ہیں۔ مجھے مولانا محمد مغیرہ نے ان تیس آیات کی حقیقت بھی واضح کردی اور قرآن میں جہاں حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمانوں پر اٹھایا جانے کا ذکر ہے اس پر تفصیلی روشنی بھی ڈالی دی۔ اس حوالے سے قرآن میں واضح لکھا ہوا ہے کہ ’بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ زبردست حکمت والا ہے‘ (نساء آیت:58)۔ اب آپ دیکھیں کہ مرزا خود پہلے اس بات کا قائل تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور جلد زمین پر اتریں گے۔ ’وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالیٰ مجرمین کیلئے قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے۔ (روحانی خزائن جلد 1صفحہ401)۔ صرف ایک بار نہیں بلکہ مرزا کئی بار یہ بات لکھ چکا ہے۔ مولانا مغیرہ نے مجھے مرزا کی تحاریر میں کئی جگہوں پر یہ دکھایا۔ اسی طرح قادیانیوں کا یہ کہنا کہ اس حوالے سے احادیث میں میں ذکر نہیں ملتا، یہ بات بھی غلط ہے۔صرف ایک حدیث پیش خدمت ہے باقی بھی کہیں تو پیش کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ تمہارا اس وقت (خوشی کے مارے) کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے آسمان سے تمہارے اندر اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔ (الآسماء والصفات للبیہقی، جلد 2 صفحہ 331 ، حدیث 895 )۔
اب یہ ایسی باتیں ہیں جو ایک عام مسلمان نہیں جانتا اور نہ ہی اسے کوئی سمجھانے والا ہے۔ شاید میں بھی راستے میں ہی کہیں بھٹک رہا ہوتا اگر ان علمائے دین اور خاص طور پر مجلس احرار کے ساتھیوں نے میرا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا۔ اب میں ان تمام اعمال کا ازالہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں جو اس دور میں مجھ سے سرزد ہوئے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے سیدھے راستے پر چلائے اور قادیانیوں جیسے جھوٹے، فریبی اور مکار لوگوں کی چالبازی سے نہ صرف مجھے بلکہ پوری امت مسلمہ کو بھی بچائے۔
٭٭٭٭٭