ایمبولینس کے ٹھیکے پر ریسکیو1122 گھیرے میں آگئی

نجم الحسن عارف
ایمبولینس گاڑیوں اور فائر ٹینڈرز کے ٹھیکے پر ریسکیو 1122 سروس گھیرے میں آگئی۔ نیب نے 323 ایمبولینسوں کی خریداری کے منصوبے اور 82 آگ بجھانے والی گاڑیوں کی خریداری کے منصوے سے متعلق ریسکیو 1122 سے کاغذات حاصل کرلئے ہیں۔ ریسکیو کے ڈی جی سے نیب لاہور نے ان گاڑیوں کی خریداری اور احمد میڈیکس نامی کمپنی کو بار بار ٹھیکہ دینے کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔ جس کے بعد گزشتہ روز ریسکیو کے قانونی امور سے متعلق ذمہ دار نے نیب حکام کو تمام ضروری ریکارڈ اور دستاویزات پیش کر دی ہیں۔ ریسکیو 1122 کی طرف سے نیب میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ نیب نے ایک ایسی خریداری میں بدعنوانی تلاش کرنا شروع کر دی ہے جو ابھی ہوئی ہی نہیں ہے بلکہ 323 ایمبولینس گاڑیوں کی خریداری کے منصوبے کیلئے اپنے اعلان کردہ ٹینڈر سے کم معیار کی گاڑیاں پیش کرنے پر ریسکیو 1122 نے نہ صرف یہ کہ ٹویوٹا گارڈن کے ساتھ گاڑیاں خریدنے کا معاہدہ منسوخ کر دیا تھا، بلکہ معاہدے پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے ٹویوٹا گارڈن سے 5 کروڑ روپے کا ہرجانہ بھی وصول کیا اور واپس سرکاری خزانے میں جمع کرایا۔ واضح رہے کہ نیب لاہور نے ریسکیو 1122 سے الگ شکایت پر وضاحت طلب کی تھی، جس میں بنیادی طور پر 323 ایمبولینس گاڑیوں، 82 آگ بجھانے والی گاڑیوں اور احمد میڈیکس نامی ایک ہی کمپنی کو بار بار کنٹریکٹ دینے کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ شکایت کنندہ نے مبینہ طور پر نیب کو دی گئی درخواست میں الزام لگایا تھا کہ ریسکیو 1122 میں وسیع پیمانے پر گھپلے ہو رہے ہیں۔ اور 323 ایمبولینس گاڑیوں اور آگ بجھانے والی گاڑیوں کی خریداری میں قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔ نیز احمد میڈیکس سے مہنگی اشیاء خریدی گئی ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ نیب نے 26 اکتوبر کو تین ریسکیو افسران کو بھی طلب کیا ہے، لیکن نیب کی طرف سے لکھے گئے خط میں ایسے تین افسروں کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ 26 اکتوبر کو ڈی جی ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوان نصیر نے قانونی امور دیکھنے والے ذمہ دار افسر کو نیب بھیجا اور تمام اٹھائے گئے سوالات کی وضاحت کر دی۔ اسی طرح احمد میڈیکس کو کنٹریکٹ دینے کے حوالے سے اس الزام کی بھی تردید کی گئی ہے کہ احمد میڈیکس کے کرتا دھرتاؤں کا ریسکیو 1122 کے کسی بڑے ذمہ دار کے ساتھ رشتہ داری کا تعلق ہے۔ خیال رہے کہ یکم دسمبر 2016ء کو اس وقت کے ہوم سیکریٹری اعظم سلیمان کے دستخطوں سے ایک ’’ہائی پاور کمیٹی‘‘ قائم کی گئی جس کا مقصد ریسکیو 1122 کیلئے نئی گاڑیاں اور دیگر آلات کی خریداری کی تفصیلات اور ترجیحات ترتیب دینا تھا۔ گیارہ رکنی کمیٹی کی سربراہی ڈاکٹر رضوان نصیر کے ذمہ دی گئی، جو ڈی جی ریسکیو 1122 ہیں۔ اسی کمیٹی نے تقریباً ایک سال کے دوران ریسکیو 1122 کیلئے بڑی خریداریوں کے فیصلے کئے۔ ان میں سب سے اہم 323 خصوصی طور پر تیار کی گئی ایمبولینس گاڑیوں کی خریداری تھی۔ اس مقصد کیلئے ٹویوٹا گارڈن نے بہتر ٹینڈر پیش کیا جسے ہائی پاور کمیٹی نے قبول کر کے اسے معاہدے میں طے کی گئی۔ کل رقم میں ایک ارب روپے پیشگی ادا کر دیئے گئے تاکہ معاہدے پر عمل درآمد ہو سکے۔ لیکن ریسکیو 1122 کے ذرائع کے مطابق یہ رقم وصول کرنے کے بعد معاہدے اور ٹینڈر میں بیان کی گئی ایمبولینس گاڑیوں کی خصوصیات کو از خود تبدیل کر دیا گیا۔ جب اس کی خبر ریسکیو 1122 کے ذمہ داران تک پہنچی تو دوبارہ ہائی پاور کمیٹی کے توسط سے ہی ٹویوٹا گارڈن سے پہلے کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا گیا، نیز معاہدے میں اپنے طور پر تبدیلی کرنے پر ٹویوٹا گارڈن کو 5 کروڑ روپے کا ہرجابہ بھی کیا گیا۔ یوں ٹویوٹا گارڈن سے یہ خریداری نہیں کی گئی، جو اس وقت نیب میں زیر انکوائری آئی ہے۔
ریسکیو ذرائع کے مطابق محکمے سے نکالے گئے تین چار افسران محکمے کی نیک نامی کو تباہ کرنے کی اس کہانی کا حصہ ہیں۔ حالانکہ ان افسران کو میرٹ پر نکالا گیا تھا۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ افسران 2013ء کے دوران محکمانہ کارروائی کی زد میں آئے تھے اور ان کو فارغ کیا گیا تھا، جبکہ گاڑیوں کی خریداری کا معاملہ 2017ء کے بعد سامنے آیا۔ دوسری جانب نیب ذرائع نے ابھی اس معاملے کو ابتدائی اور نچلی سطح پر زیر انکوائری آنے والا معاملہ قرار دیا ہے۔ لیکن اگرہ نیب حکام ریسکیو 1122 کی طرف سے 26 اکتوبر کو دیئے گئے جوابات کے بعد مطمئن نہ ہوئے تو معاملہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment