حملوں کے خوف نے امریکی فوج کو افغان اہلکاروں سے دور کردیا

احمد نجیب زادے
اندرونی حملوں کے خوف نے امریکی افواج کو افغان فوجی اور پولیس اہلکاروں سے دور کردیا۔ اعلیٰ امریکی کمانڈرز نے محکمہ دفاع کی ہدایات پر افغان افواج اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ تمام شخصی رابطے ختم کردیئے ہیں۔ امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈرز کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مرحلہ یا آپریشن کے بارے میں افغان افواج سے ’’فیس ٹو فیس‘‘ رابطہ نہ کریں اور تمام حساس آپریشنز کیلئے افغان حکام اور افواج سے ای میل اور ٹیلی فون پر ڈسکس کریں۔ امریکی گائیڈ لائنز میں تمام امریکی کمانڈرز اور اہلکاروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ افغان اہلکاروں اور بالخصوص محافظوں سے دور رہیں۔ ان سے ہاتھ وغیرہ نہ ملائیں اور ان کے ساتھ میٹنگز میں شامل نہ ہوں، کیونکہ ان کی جانب سے اچانک حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے افغان سپاہیوں سے میل جول ختم کرکے اپنی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں امریکی عسکری کمانڈرز نے افغان حکام اور کمانڈرز پر واضح کردیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ جوائنٹ مشن اور میٹنگ سے معذور ہیں جبکہ اس سلسلے میں ای میل اور ٹیلی فونک گفتگو کی مدد سے افغان طالبان کے خلاف عسکری معاملات طے کئے جائیں گے اور ان کوہدایات بھی ای میل اور فون پر دی جائیں گی۔ قندھار حملے میں افغانستان میں امریکی فوجی سربراہ جنرل اسکاٹ ملر کی جان بچنے کے بعد امریکی محکمہ دفاع کی اس خوف سے بھری حفاظتی پالیسی کے بارے میں افغان عسکری اور سیاسی قیادت خاموش ہے اور انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے کہ۔ واشنگٹن پوسٹ کی نامہ نگار پامیلا کانسٹیبل نے لکھا ہے کہ لگاتار دو حملوں کے بعد حفاظتی اقدامات کے طور پر تمام امریکی و اتحادی افواج کو افغان آرمی کے کمپائونڈز سے نکال لیا گیا ہے اور انہیں الگ رہائش گاہوں میں قیام کی اجازت دی گئی ہے جبکہ امریکی و اتحادی افواج کی رہائش گاہوں اور جائے قیام پر موجود تمام افغان اہلکاروں کو بھی فوری طور پر ہٹا دیا گیا ہے تاکہ امریکی و اتحادی افواج کی افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے واقعات کو روکا جاسکے۔ اس ضمن میں پامیلا کانسٹیبل نے بتایا ہے کہ امریکی عسکری قیادت نے تصدیق کی ہے کہ امریکی و اتحادی عساکر کو افغان اہلکاروں سے ملاقاتوں اور میٹنگز سے روک دیا گیا ہے اور انتہائی ضروری میٹنگز کیلئے افغان کمانڈرز کو امریکی بیس میں بلوایا جاتا ہے اور ان کو تلاشی کے عمل سے گزار کر ہتھیار جمع کرانے کے بعد امریکیوں کے ساتھ میٹنگز میں شریک کیا جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے بتایا ہے کہ قندھار میں ہائی پروفائل حملوں کے بعد امریکی اعلیٰ عسکری قیادت میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ جب اعلیٰ افسران تک طالبان کے نفوذ کردہ جنگجوئوں کی رسائی ممکن ہے تو یقیناً آگے ایسے مزید سنگین واقعات رونما ہوسکتے ہیں، لیکن بعض افغان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ قندھار میں جنرل عبد الرازق کی ہلاکت کو مقامی افغان عمائدین اور عام افراد ’’سازشی نظریے‘‘ کی عینک سے دیکھ رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جنرل رازق کو امریکی افواج ہی نے ٹھکانے لگوایا ہے۔ جریدے نے بتایا ہے کہ ماضی میں امریکی فوجی اڈے پر قرآن کریم کے نسخوں کو جلائے جانے کی خبروں کے بعد سے امریکی افواج کیخلاف اندرونی حملوں میں تیزی آئی ہے کیونکہ عام افغان، امریکیوں کو بیرونی در انداز سمجھتے ہیں۔ ادھر ایک چشم کشا رپورٹ میں امریکی جریدے اسٹرائپس نے انکشاف کیا ہے کہ قندھار حملوں کے بعد کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کو روکنے کی خاطر امریکی افواج کی اعلیٰ قیادت نے افغان فوجیوں کو تربیت دینے والے ’’یو ایس آر ٹریننگ بریگیڈ‘‘ کے 100سے زائد فوجی ٹرینرز کو واپس امریکا بھیج دیا ہے اور تا حال تمام شعبہ جات کی ٹریننگ کا عمل روک دیا ہے جبکہ ان ٹرینرز کو نئی حفاظتی پالیسی کے قیام و نفاذ کے بعد فروری2019ء میں واپس امریکا سے افغانستان بلوایا جائے گا۔ یہ امریکی فوجی ٹرینرز افغان افواج کو ٹریننگ دیں گے۔ جریدے کی تجزیہ نگار لولیتا سی بالڈر نے بتایا ہے کہ امریکی ٹرینرز کی واپسی کا یہ فیصلہ غیر متوقع ہے۔ امریکی فوجی جریدے ملٹری ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی افواج نے افغان کنٹریکٹرز اور افواج کے ساتھ بالمشافہ رابطوں کی پالیسی ختم کردی ہے، کیونکہ افغان افواج کے ہاتھوں ایک دہائی میں 160 سے زائد امریکی اور اتحادی فوجی ہوچکے ہیں جبکہ افغان طالبان کے حملوں میں 250 عالمی فوجی ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔ اب تک طالبان نے افغان افواج کے 3,500 افسران اور اہلکاروں کو ٹھکانے لگایا ہے اور اس سے دوگنی تعداد کو زخمی اور معذور کردیا ہے۔ افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی افواج کی دو بدو ملاقات اور بالمشافہ رابطوں کی پالیسی میں تبدیلی قندھار میں حالیہ حملوں کے سبب ہوئی ہے جس میں اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بال بال بچ گئے تھے لیکن اسی حملے میں ایک اعلیٰ امریکی افسر جیفری اسمائیلی شدید زخمی ہوا ہے، جبکہ دو کنٹریکٹرز ہلاک اور ایک فوجی بھی قتل ہوا ہے۔ اسی حملے میں افغان پولیس کمانڈر جنرل عبد الرازق کو بھی گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ امریکی اسٹریٹیجک ادارے ماڈرن وار فیئر انسٹیٹیوٹ آف امریکا/ ویسٹ پوائنٹ اکیڈمی کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے اندرونی حملوں کی پالیسی ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ طریقہ کار ہے، جس میں محنت کم اور مخالفین کا نقصان زیادہ ہے۔ ادھر نیٹو کمانڈر کرنل کناٹ پیٹر نے اس سلسلہ میں بتایا ہے کہ ہم دہشت گردوں کیخلاف کارروائیوں کو بالکل بھی نہیں روک رہے ہیں لیکن اس ضمن میں افغان مقامی فورسز کے کمانڈرز اور اہلکاروں سے تمام رابطے ختم کردیئے گئے ہیں۔ افغان الیکٹرونک نیوز پورٹل طلوع نیوز نے بتایا ہے کہ افغانستان میں ’’انسائیڈر اٹیک‘‘ کی تازہ کارروائی اسی ہفتے میں ہرات صوبہ میں ہوئی ہے، جہاں طالبان کی جانب سے افغان فوج میں پہلے سے بھرتی کرائے جانے والے ایک فدائی افغان اہلکار نے جمہوریہ چیک کے فوجیوں پر بندوق خالی کردی، جس سے ایک چیک فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ واضح رہے کہ امریکی انٹیلی جنس اور محکمہ دفاع کی جانب سے ایک خفیہ رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ افغان طالبان جنگجوئوں کی جانب سے افغان انٹیلی جنس سمیت افواج اور پولیس میں ہزاروں ایجنٹ اور خفیہ اہلکار بھرتی کرا دیئے گئے ہیں، جن کو مختلف مواقع پر ٹاسک دے کر اتحادی و امریکی افواج پر حملے کرائے جاتے ہیں۔ اس لئے افغان افواج پر بھروسا ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں آسٹریلیا اور جرمنی سمیت مختلف اتحادی افواج کے کمانڈرز نے مشترکہ گشت اور میٹنگز کے دوران اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ہر افغان سپاہی اور کمانڈر پر نظر رکھنے کیلئے ایک غیر ملکی مسلح اہلکار ہر وقت ان پر تعینات رکھا جائے کہ ان کی جانب سے کسی بھی حملے کی صورت میں اس کا فوری تدارک کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment