اسرائیلی طیارے کا معاملہ حکومت کے گلے پڑگیا

امت رپورٹ
پاکستان میں اسرائیلی طیارہ اترنے کی واضح حکومتی تردید کے بعد بھی بالخصوص سوشل میڈیا پر یہ طوفان تھما نہیں ہے۔ اور بظاہر یہ معاملہ حکومت کے گلے پڑ گیا ہے۔ جبکہ بذریعہ ٹوئٹ اس خبر یا افواہ کو پھیلانے والے اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر نے حکومت پاکستان کی تردید کے بعد دوبارہ ٹیوٹر پر متعدد پوسٹیں کر کے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔
اسرائیلی صف اول کے اخبار ’’ہارٹیز‘‘ کے ایڈیٹر ایوی شراف نے اس سلسلے میں نصف درجن کے قریب اپنے تازہ ٹوئٹس کی ایک پوری سیریز جاری کی ہے اور ان ٹوئٹس پر اٹھنے والے بعض سوالات کے جواب بھی دیئے ہیں۔ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے وضاحتی عکس کے ساتھ اپنے ٹوئٹس میں ایوی شراف کا کہنا ہے کہ ان کی پچھلی پوسٹ کے نتیجے میں پاکستان میں شور شرابا ہو رہا ہے۔ یہاں وہ تمام تفصیلات بیان کر رہے ہیں، جو ان کے پاس ہیں۔ ایوی شراف کا کہنا تھا کہ ’’بزجیٹ ایم ۔ یو ایل ٹی آئی 23 اکتوبر کو سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے تل ابیب سے عمان کے لئے روانہ ہوا۔ لیکن خلیج عمان میں ٹریک سے غائب ہو گیا۔ پھر یہ طیارہ 20 ہزار فٹ کی بلندی پر اسلام آباد کی طرف نمودار ہوا۔ اور دوبارہ ٹریک سے غائب ہو گیا۔ تاہم 10 گھنٹے بعد پھر ٹریک پر اسلام آباد کی طرف سے اڑتا ہوا دکھائی دیا اور جس روٹ سے اس کی عمان سے اسلام آباد آمد ہوئی تھی، اسی راستے سے واپسی ہوگئی‘‘۔ ایوی شراف کا مزید کہنا ہے ’’میں نہیں جانتا کہ اس طیارے کا مالک کون ہے اور کون اس کا پائلٹ تھا۔ اور پھر کیونکہ طیارہ ٹریک سے اوجھل ہو گیا تھا، لہٰذا میں طیارے کے اسلام آباد اترنے کی سو فیصد تصدیق نہیں کر سکتا۔ یہ اب پاکستان میں تفتیشی دماغ رکھنے والوں کا کام ہے کہ وہ اس کا سراغ لگائیں۔ سیریز کے آخری اور چھٹے ٹوئٹ میں ایوی شراف نے کہا کہ ’’حکومت پاکستان نے اس کی تردید جاری کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سلسلے میں ’’فلائٹ ریڈار‘‘ حتمی طور پر بتا سکتی ہے کہ طیارہ کب آیا اور اس نے کب لینڈنگ کی‘‘۔ واضح رہے کہ ’’فلائٹ ریڈار 24‘‘ دنیا بھر میں لائیو ایئر ٹریفک پر نظر رکھتی ہے۔ ٹوئٹر پر ایک صارف کے جواب میں ایوی شراف کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ مذکورہ طیارہ 18 اکتوبر کو امریکہ سے تل ابیب واپس آیا تھا اور 23 اکتوبر کو پاکستان گیا اور پھر 24 اکتوبر کو تل ابیب کے بین گوریان ایئرپورٹ پر اترا۔
اس سارے معاملے پر پہلی ٹوئٹ ایوی شراف نے جمعرات کی صبح کی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی بزجیٹ تل ابیب سے اسلام آباد پاکستان پہنچا اور دس گھنٹے لینڈنگ کے بعد واپس تل ابیب آ گیا۔ جبکہ طیارے کے پائلٹ نے دوران پرواز یہ چالاکی کی کہ طیارے کو تل ابیب سے اڑا کر اردن کے دارالحکومت عمان کے ہوائی اڈے پر اتار دیا۔ تاہم پانچ منٹ لینڈنگ کے بعد اسی رن وے سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس طرح یہ پرواز تل ابیب سے اسلام آباد کے بجائے تل ابیب سے عمان کی پرواز بن گئی۔ اور پھر یہ پرواز عمان سے اسلام آباد کی فلائٹ بن گئی۔ جس دوران ایوی شراف کے اس دعوے پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا تھا تو ٹھیک اس دوران دنیا بھر کی سیاست، معیشت، فوجی معاملات، سائنس اور ٹیکنالوجی پر نظر رکھنے والی معروف ویب سائٹ ’’دی اسپیکٹیٹر انڈکس‘‘ نے یہ بریکنگ نیوز چلا دی کہ ’’وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک ایسے ملک کا خفیہ دورہ کیا ہے جس کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں‘‘ اسپیکٹیٹر انڈکس نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نے کس ملک کا خفیہ دورہ کیا ہے۔ تاہم اس کے بعد یہ بحث مزید طول پکڑ گئی۔ اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر کے اس دعوے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب برطانوی نشریاتی ادارہ بھی میدان میں کود پڑا۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’’ایوی شراف کی ٹوئٹ پر معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ ایک طیارہ پاکستان آیا اور دس گھنٹے بعد ریڈار پر دوبارہ نمودار ہوا۔ جبکہ پروازوں کی آمدورفت یا لائیو ایئر ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار پر اس پرواز کی اسلام آباد آمد اور دس گھنٹے بعد پرواز کے ثبوت موجود ہیں‘‘۔
سینئر مسلم لیگی رہنما احسن اقبال نے اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد سے متعلق رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹوئٹر پر مطالبہ کیا تھا کہ حکومت حقیقی صورت حال واضح کرے۔ جس پر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس کی طنزیہ وضاحت کرتے ہوئے جوابی ٹوئٹ میں کہا کہ ’’ہم نہ مودی جی اور نہ اسرائیل سے خفیہ مذاکرات کریں گے۔ آپ کو پاکستان کی اتنی فکر ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو آج ہم ان حالات میں نہ ہوتے اس لئے جعلی فکر نہ کریں، پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے‘‘۔
اسلام آباد میں موجود سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتداء میں حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ اس افواہ نما خبر کا ایشو اتنا بڑھ جائے گا کہ صف اول کے پاکستانی صحافی اور سیاستدان بھی اس بارے میں سوالات اٹھانا شروع کر دیں گے۔ ذرائع کے مطابق بذریعہ ٹوئٹ وزیر اطلاعات کی طنزیہ وضاحت کے بعد بھی جب یہ طوفان بڑھتا چلا گیا تو بالآخر وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کر کے خبر کی باقاعدہ تردید کا فیصلہ کیا۔ اور ساتھ ہی پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی وضاحت کر دی کہ ’’کسی اسرائیلی طیارے کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد کی افواہ میں قطعی کوئی صداقت نہیں‘‘۔
تاہم وزیر خارجہ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی اس تردید کے باوجود سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں تاحال بحث جاری ہے۔ اب سوشل میڈیا پر سول ایوی ایشن کی وضاحت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اتھارٹی نے یہ کہہ کر کہ کوئی ’’اسرائیلی طیارہ‘‘ پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر نہیں اترا، تکنیکی طور پر اپنا دعویٰ درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ جس طیارے کے اسلام آباد میں اترنے کی بات کی جا رہی ہے، وہ طیارہ کینیڈا کی طیارہ ساز کمپنی بمبار ڈیئر کا بنایا ہوا ہے۔ اسی طرح طیارہ اسرائیل میں رجسٹرڈ نہیں بلکہ خود مختار برطانوی ریاست ’’ آئل آف مین‘‘ میں رجسٹرڈ ہے۔ اور آف شور کمپنی ’’ملٹی برڈ اوورسیز لمیٹڈ‘‘ اس کی مالک ہے۔ یوں اسرائیل کے زیر استعمال ہونے کے باوجود تکنیکی طور پر یہ طیارہ اسرائیلی نہیں کہلا سکتا۔ سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے سوالات کے مطابق پاکستان اور اسرائیل کے مابین چونکہ سفارتی تعلقات نہیں، لہٰذا دونوں ممالک میں رجسٹرڈ طیارے ایک دوسرے کی فضائی حدود میں نہیں آ سکتے۔ اسی لئے مبینہ خفیہ دورے کے لئے ایسے طیارے کا انتخاب کیا گیا جو نہ صرف آف شور کمپنی کی ملکیت ہے بلکہ اسرائیل میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔ بی بی سی نے بھی اسی نقطے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طیارے کی ملکیتی کمپنی ’’ملٹی برڈ اوور سیز لمیٹڈ‘‘ کا پتہ آف شور اکائونٹ کے حوالے سے شہرت رکھنے والے جزیرے برٹش ورجن آئر لینڈ کا ہے۔ اس پتے پر 38 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پاناما لیکس کی کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے تردید کے بعد سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ٹیکنیکل تردید کے بجائے سیدھی وضاحت کرے کہ تل ابیب سے اڑنے والے کسی بھی کمپنی کے طیارے نے بیان کردہ تاریخوں کے دوران دس گھنٹے کے لئے اسلام آباد میں لینڈنگ کی یا نہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی طیارے کی آمد سے متعلق خبر اگر افواہ تھی تو پھر اسے رپورٹ کرنے والے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے خلاف حکومت مقدمے کا اعلان کیوں نہیں کر رہی؟ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment