فرشتوں کی عجیب دنیا

ہاروت ماروت:
حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمرؓ سے حالت سفر میں ملا، جب رات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے غلام سے فرمایا: دیکھو حمراء طلوع ہو گئی، اسے مرحبا نہ ہو اور نہ خوش آمدید کہو اور نہ ہی اسے خدا ترو تازگی بخشیں، یہ دو فرشتوں کی ہم نشین تھی۔ فرشتوں نے کہا تھا: اے پروردگار! آپ بدکار انسانوں کو کیسے چھوڑ دیتے ہیں، جبکہ وہ ناجائز خون بہاتے، آپ کے محرمات کی خلاف ورزی کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں؟
(حق تعالیٰ نے) فرمایا: میں نے تو امتحان لیا ہے، پس اگر میں تمہارا بھی انہیں کی طرح کا امتحان لے لوں تو تم بھی وہی کرو، جو وہ کرتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: نہیں (ایسا تو نہ ہو گا)۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: تو پھر تم اپنے نیک ترین میں سے دو افراد کو منتخب کر لو، تو انہوں نے ہاروت اور ماروت کو منتخب کیا۔ تو رب تعالیٰ نے ان دونوں سے فرمایا: میں تمہیں زمین میں اتار رہا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ نہ تو تم شرک کرو گے، نہ زنا کرو گے اور نہ خیانت کرو گے، پھر انہیں زمین پر اتار دیا گیا اور ان پر نفسانی شہوت مسلط کر دی گئی اور ان کے لیے زہرہ کو حسین ترین عورت کی صورت میں اتارا گیا، پس جب وہ ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اس کے جسم کا ارادہ کیا۔ تو اس نے کہا میں تو ایک ایسے دین پر ہوں کہ کسی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ میرے پاس آئے، سوائے اس کے کہ وہ بھی وہی دین اپنا لے۔
انہوں نے پوچھا کہ تیرا کیا دین ہے؟ اس نے کہا (میرا دین) مجوسیت ہے۔ انہوں نے کہا یہ تو شرک ہے (اور) یہ ایسی شے ہے کہ ہم اس کا اقرار نہیں کر سکتے۔ تو جب تک رب تعالیٰ نے چاہا، وہ عورت (اتنے عرصہ تک) دور رہی، پھر ان کے سامنے آئی تو بھی انہوں نے اس سے اس کا نفس طلب کیا، تو اس نے کہا تم جو چاہتے ہو، میں ناپسند کرتی ہوں کہ اس کی اطلاع میرے خاوند کو ہو جائے اور میں شرمندہ ہو جائوں، پس اگر تم میرے لیے میرے دین کا اقرار کر لو اور یہ شرط بھی تسلیم کرو کہ تم مجھے ساتھ لے کر آسمان کی طرف پرواز کرو گے تو میں تیار ہوں۔ تو انہوں نے اس کے دین کا اقرار کیا اور جو چاہتے تھے، وہ کیا۔ پھر وہ اس سمیت آسمان کی طرف پرواز کرنے لگے، پس جب وہ آسمان تک جا پہنچے تو وہ (زہرہ) ان سے اچک لی گئی اور ان کے پر کاٹ دیئے گئے تو یہ خوف زدہ اور شرمندہ ہو کر روتے ہوئے (زمین پر) گر گئے۔
(اس زمانے میں) زمین پر ایک نبی تھے، جو دو جمعوں کے درمیان دعا کیا کرتے تھے، جب جمعہ کا دن ہوتا تو ان کی دعا پوری ہو جاتی تھی۔ تو ان فرشتوں نے کہا کہ اگر ہم فلاں (نبی) کے پاس حاضر ہوں اور اس سے سوال کریں تاکہ وہ ہمارے لیے (رب تعالیٰ سے) توبہ (کرنے کی اجازت) طلب کرے۔ تو وہ اس کے پاس گئے تو اس نے فرمایا: خدا تم پر رحم فرمائے، زمین والا آسمان والوں کے لیے (توبہ) کیسے طلب کرے؟ انہوں نے عرض کیا: ہم تو امتحان میں مبتلا ہوگئے۔ تو اس (نبی) نے فرمایا: تم میرے پاس جمعہ کے روز آنا، تو وہ اس کے پاس (جمعہ کے روز) آئے۔
اس نبی نے فرمایا: تمہارے متعلق میری کوئی دعا قبول نہیں ہوئی، تم میرے پاس دوسرے جمعہ کو آنا۔ تو وہ (دوسرے جمعہ کو) آئے، اس (نبی علیہ السلام) نے فرمایا: تم منتخب کرلو تمہیں اختیار دیا گیا ہے کہ اگر تمہیں پسند ہو دنیا میں معافی ہو جائے اور آخرت میں عذاب میں رہو اور اگر چاہو تو دنیا میں عذاب میں رہو اور آخرت میں خدا کے حکم (عذاب سے) محفوظ رہو۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ دنیا کا بہت کم حصہ گزرا ہے، اس لیے آخرت کے عذاب کو منتخب کر لیں تو دوسرے نے کہا تم پر افسوس ہے، میں نے پہلے تمہاری مانی ہے، اب تم میری مانو، پھر انہوں نے دنیاوی عذاب کو منتخب کر لیا۔ ہاروت و ماروت کا قصہ صحیح ہے۔ اس قصہ کے اور بھی بہت سے طرق ہیں جن کو حافظ ابن حجرؒ (عسقلانی) نے ایک مستقل جز، کی شکل میں جمع فرمایا ہے اور اپنی کتاب القول المسدد فی الذب عن مسند احمد میں فرماتے ہیں: اس قصہ کا واقف کار کثرت طرق واردہ اور اکثر (روایات) کے قوت مخارج کی وجہ سے اس کے وقوع پر یقین کر ہی لے گا اور میں (مراد علامہ سیوطیؒ ہیں) بھی اس جزء کا واقف ہوں، جسے انہوں نے جمع کیا ہے، جس میں انہوں نے تقریباً انیس طریق (سندیں) ذکر کئے ہیں اور میں نے بھی تفسیر میں اس کے طرق جمع کئے ہیں جو بیس سے زائد ہیں۔
(فائدہ) یہ قصہ مذکورہ روایات میں مختلف انداز سے وارد ہے، ان کا مجموعہ اپنی اپنی مختلف اسناد کے ساتھ مل کر اتنی حیثیت تو ثابت کرتا ہے کہ اس کا وقوع ہوا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ اور علامہ سیوطیؒ جیسے متبحر علما کے اقوال اوپر گزرے ہیں۔ لیکن حافظ ابن کثیرؒ اور بہت سے مفسرین وغیرہ یہ فرماتے ہیں، چونکہ یہ واقعہ عصمت ملائکہ کے اس عقیدہ کے خلاف ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے، اس لیے اس واقعہ کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ روایت کعب احبارؒ کے ذریعے مروی ہے، جس کو ناقلین نے مرفوع کر کے روایت کر دیا ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment